1
۱۔پھر تمام محصول لینے والے اور دوسرے گناہ گار یسوع کے پاس اُس کو سننے کے لئے آنے لگے۔
2
۲۔فریسی اور شرع کے استاد دونوں ایک دوسرے کےساتھ بات کرکے اعتراض کرنے لگے، ’’ یہ آدمی گناہ گاروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا ہے‘‘
3
۳۔ یسوع نے اُن سے یہ تمثیل کہی۔
4
۴۔’’تم میں سے اگر کسی کی سو بھیڑیں ہوں اور اگر ایک کھو جائے تو کیا وہ ننانوے بھیڑوں کو ویرانے میں چھوڑ کر ایک کھوئی ہوئی بھیڑ کے پیچھے نہ جائے گا جب تک اُ س کو تلاش نہ کر لے‘‘۔
5
۵۔ تب جب وہ اسے ڈھونڈ لیتا ہے تو کندھوں پر بٹھا کر شادمانی کرتا۔
6
۶۔ جب وہ اپنے گھر آتا ہے وہ اپنے دوستو اور ہمسائیوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے، ’’ میرے ساتھ خوشی منائو کیونکہ میں نے اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ ڈھونڈ لی ہے۔
7
۷۔میں تم سے کہتا ہوں کہ ایسے ہی آسمان پر ایک گناہ گار کے لئےجو توبہ کرتا ہے ننانوے راست بازوں کی نسبت جنہیں توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے زیادہ خوشی ہو گی۔
8
۸۔ یہ کون سی عورت ہے جس کے پاس دس چاندی کے سکے ہوں اور اگر ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر جھاڑو لگاکر محنت سے نہ ڈھونڈے جب تک اُسے تلاش نہ کرلے۔
9
۹۔ اور جب اُسے تلاش کر لے تو اپنی سہیلیوں اور ہمسائیوں کو بلائے تاکہ وہ اُن کے ساتھ خوشی منائے کیونکہ اُس کا کھویا ہوا سکہ مل گیا ہے جو کھو گیا تھا۔
10
۱۰۔ ایسے ہی میں تم سے کہتا ہوں ایک گناہ گار کے لئے جو توبہ کرتا ہے خدا کے فرشتوں کی موجودگی میں زیادہ خوشی ہوگی۔
11
۱۱۔تب یسوع نے کہا، ایک شخص کے دو بیٹے تھے۔
12
۱۲۔اور چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا،’’جائیداد کا جو حصہ مجھے آتا ہے مجھے دے دے‘‘پس اُس نے جائیداد اُن دونوں بیٹوں میں بانٹ دی۔
13
۱۳۔بہت دن نہ گزرے تھے کہ چھوٹے بیٹے نے اپنا مال جمع کیا اور دور دراز کے ملک چلا گیا اور وہاں اُس نے اپنی دولت فضول خرچی اور عیش و عشرت میں اڑادی۔
14
۱۴۔جب وہ سب خرچ کر چکا تو اُس سارے ملک میں شدید قحط پڑا اور وہ محتاج ہو گیا۔
15
۱۵۔ وہ گیا اور ایک امیر آدمی کے ہاں اُس ملک میں ملازمت کر لی، جس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُور چرانے بھیجا۔
16
۱۶۔ اور جو پھلیاں سُورکھاتے تھے وہی وہ کھاتا کیونکہ اُسے اور کچھ کھانے کو نہ ملتا تھا۔
17
۱۷۔ لیکن جب اُس جوان کو ہوش آیا تو اُس نے کہا، ’’میرے باپ کے کتنے ہی ملازم افراط سے روٹی کھاتے ہیں اور میں یہاں بھوک سے مر رہا ہوں!۔
18
۱۸۔ میں اپنےباپ کے پاس جائوں گا اور اُس سے کہوں گا،’’ اَے باپ،میں نے آسمان اور تیری نظر میں گناہ کیا ہے۔
19
۱۹۔ میں اِس لائق نہیں کہ تیرا بیٹا کہلائوں، مجھے اپنے نوکروں میں سے کسی ایک کی مانند بنا لے‘‘۔
20
۲۰۔ پس چھوٹا بیٹا روانہ ہو کرباپ کے پاس آیا جبکہ وہ دور ہی تھا تو باپ اسے دیکھ کر ترس سے بھر گیا اور دوڑ کر اُسے گلے لگالیا اور چوُما۔
21
۲۱۔بیٹے نے باپ سے کہا،’’میں آسمان کا اور تیری نظر میں گناہ گار ہوا میں اس لائق نہیں کہ تیرا بیٹاکہلائوں‘‘۔
22
۲۲۔باپ نے اپنے ملازموں سے کہا جلدی سے بہترین لباس لائو اور میرے بیٹے کو پہنائو اور اُس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پائوں میں جوتی پہنائو۔
23
۲۳۔ ایک پَلا ہوا بچھڑا لائو اور اُسے ذبح کرو۔
24
۲۴۔آئو ضیافت کریں اور کھائیں پیئں کیونکہ میرا بیٹامر گیا تھا اور اب یہ زندہ ہے۔یہ کھو گیا تھا اور اب ملا ہے۔پس وہ دعوت کرنے لگے۔
25
۲۵۔ اور اُس کا بڑا بیٹا باہر کھیت میں تھا جیسے ہی وہ گھر کےقریب آیا اُس نے موسیقی اور گانے کی آواز سُنی۔
26
۲۶۔اُس نے ایک نوکر کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟۔
27
۲۷۔ نوکر نے اُسے بتایا، ’’تیرا بھائی واپس آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پَلا ہوا بچھڑا ذبح کیا ہے، کیونکہ وہ خیریت سے پہنچ گیا ہے۔
28
۲۸۔بڑا بیٹاناراض ہوا اور اندر نہیں جانا چاہتا تھا اور اُس کا باپ باہر آیا اور منت کی۔
29
۲۹۔ لیکن بڑے بیٹے نے جواب میں اپنے باپ سے کہا، ’’ دیکھ کئی برس میں نے تیری خدمت کی اور میں نے تیرے کسی حکم کو نہیں توڑا تو بھی تُو نے مجھے ایک چھوٹا سا بکری کا بچّہ بھی نہیں دیا تاکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ دعوت کروں۔
30
۳۰۔لیکن جب تیرا یہ بیٹاآیا جس نے تیرا مال کسبیوں کے ساتھ ضائع کر دیا تو تُو نے پَلا ہوا بیل ذبح کیا۔
31
۳۱۔باپ نے اُس سے کہا’’تُو تو ہمیشہ میرے ساتھ ہے اور سب جو میرا ہے وہ تیرا ہے۔
32
۳۲۔لیکن ہمارے لئے یہ مناسب تھا کہ ضیافت کرتے اور خوشی کرتے کیونکہ تیرا یہ بھائی مر گیا تھااب زندہ ہے،کھو گیا تھا اب مل گیا ہے‘‘۔