1
۱۔ ایک سبت کے دن ایسا ہوا کہ جب یسوع فریسیوں میں سےکسی ایک کے گھر کھانا کھانے گیا تو وہ اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔
2
۲۔ دیکھو،اُن کے سامنےایک آدمی تھا جو امراض جلندر میں مبتُلا تھا۔
3
۳۔ یسوع نے یہودی شریعت کے ماہرین اور فریسیوں سے پوچھا،’’کیا سبت کے روز شفا دینا جائزہے یانہیں؟‘‘۔
4
۴۔لیکن وہ خاموش رہے ۔پس یسوع نے اُسے پکڑا اور اُسے شفا دی اور بھیج دیا۔
5
۵۔ اُس نے اُن سے کہا’’ تم میں سے اگر کسی کا بیٹا یابیل کنویں میں گرجائے تو کیا تم اُسے سبت کے دن جلدی سے باہر نہ کھینچ نکالوگے؟۔
6
۶۔وہ اُس کی باتوںکا جواب دینے کے قابل نہ تھے۔
7
۷۔ جب یسوع نےدیکھا کہ جن کو دعوت دی گئی تھی وہ اعلیٰ نشتیں پسند کرتے ہیں تواُس نے ایک تمثیل کہی‘‘۔
8
۸۔ جب تمہیں کوئی شادی کی ضیافت میں دعوت دے توبڑی اعلیٰ جگہ نہ بیٹھو کیونکہ شاید تم سے زیادہ معززشخص کو مدعو کیا ہو؟۔
9
۹۔جب وہ شخص جس نے تم دونوں کو بلایا ہو آجائے تو وہ تم سے کہے گا اپنی یہ جگہ دوسرے شخص کو دے دے،تب تمہیں شرمندگی سے سب سے نچلے درجے کی جگہ بیٹھنا پڑے گا۔
10
۱۰۔ لیکن جب تمہیں بلایا جاتا ہے تو جائو اور کم ترین جگہ پر بیٹھو تاکہ جب وہ جس نے تمہیں بلایا ہے آئے تو کہے،دوست اعلیٰ جگہ پر بیٹھو۔تب تم سب کی موجودگی میں جو تمہارے ساتھ میز پر بیٹھے ہیں عزت پائوگے۔
11
۱۱۔جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائےگا اور جوکوئی اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا
12
۱۲۔ یسوع نے اُس آدمی سے جس نے اُسے دعوت دی تھی کہا، ’’ جب تم کسی کو کھانے پردعوت دو تو اپنے دوستو، اپنے بھائیوں یا اپنے امیر ہمسائیوں کو نہ بلائو تاکہ بدلے میں وہ بھی تمہیں بلائیں اورتمہارا بدلہ چکا دیا جائے۔
13
۱۳۔لیکن جب تم کوئی دعوت کرو تو غریبوں ، معذوروں، لنگڑوں اور اندھوں کو بلائو کیونکہ وہ تمہارا بدلہ نہیں دے سکتے۔
14
۱۴۔ اور تم برکت پائوگے اور تمہیں راست بازوں کی قیامت میں اجر ملےگا۔
15
۱۵۔تب اُن میں سے ایک شخص جو میز پر یسوع کے ساتھ بیٹھا تھا یہ باتیں سنیں تو اُس نے کہا،’’مبارک ہے وہ جو خدا کی بادشاہت کا کھانا کھائے‘‘۔
16
۱۶۔لیکن یسوع نے کہا،’’کسی شخص نے ایک بڑی ضیافت تیار کی اور بہت لوگوں کو بلایا۔
17
۱۷۔ جب کھانا تیار ہوا تواُس نے اپنے نوکروں کو بھیجا کہ بلائے ہووں کو کہے آئو کیونکہ اب سب کچھ تیار ہے‘‘۔
18
۱۸۔ اُن سبھوں نے بہانے بنانے شروع کیے۔پہلے شخص نے اُس سے کہا،’’ میں نے ایک کھیت خریدا ہے مجھے جا کر اُسے دیکھنا ہے،مہربانی سے مجھے معاف کریں۔
19
۱۹۔ اور دوسرے نے کہا، ’میں نے پانچ جوڑی بیل خریدے ہیں میں انہیں آزمانے جا رہا ہوں۔ مہربانی سے مجھے معاف کیجئے۔
20
۲۰۔ اورتیسرے نے کہا،’’ میں نے بیاہ کیا ہے اِس لئے میں نہیں آ سکتا‘‘۔
21
۲۱۔نوکر نے آکر اپنے مالک کو اُن سب کے بارے میں بتایا تب گھر کا مالک غصہ ہوا اور اُس نے اپنے نوکر سے کہا،’’جلدی سے شہر کے بازاروں اور کوچوں میں جائو اور غریبوں،معذروں،اندھوں اور لنگڑوں کو یہاں لائو۔
22
۲۲۔ نوکر نے کہا، ’’ اے خداوند!جیسا تو نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوامگر ابھی بھی جگہ باقی ہے‘‘۔
23
۲۳۔ مالک نے نوکر سے کہا، شاہراہوں پر اور کھیت کی باڑوں کی طرف جائو اور لوگوں کو زور دوکہ اندر آئیں تاکہ میرا گھر بھر جائے۔
24
۲۴۔میں تم سے کہتا ہوں کہ اُن آدمیوں میں سے کوئی بھی جسے دعوت دی گئی تھی میرا کھانا نہ چکھے گا۔
25
۲۵۔ پھر بڑی بھیڑ اُس کے ساتھ جا رہی تھی اور وہ ُمڑا اور اُن سے کہا۔
26
۲۶۔’’اگرکوئی میرے پیچھے آئے اور اپنے ماں، باپ، بیوی،بچوں،بھائیوں ، بہنوں سے اور اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا‘‘۔
27
۲۷۔ جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرا شاگردنہیں ہو سکتا۔
28
۲۸۔ تم میں سے کون ہے جو ایک مینار بنانا چاہتا ہے اور پہلے بیٹھ کر حساب نہیں لگاتا کہ اُس کے پاس اسے مکمل کرنے کے لئے کتنا خرچ موجود ہے؟۔
29
۲۹۔نہیں تو جب وہ بنیاد رکھ لے اور اسے مکمل نہ کر سکے تو سب دیکھنے والے اُس کا مذاق اڑائیں گے۔
30
۳۰۔ کہ اُس آدمی نے تعمیر تو شروع کر دی لیکن اُسے مکمل نہ کر سکا۔
31
۳۱۔یا کون سا بادشاہ ہے جو دوسرے بادشاہ سے جب جنگ کرنے کو جاتاہے تو پہلے بیٹھ کر مشورہ نہیں کر لیتا کہ آیا وہ دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ دوسرے بادشاہ سے جو بیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ آتا ہے جنگ کر سکتاہے؟۔
32
۳۲۔اور اگر ایسانہ ہوتو اپناایلچی بھیج کر جبکہ دوسری فوج دور ہی ہے تو صلح کی درخواست پیش کرے۔
33
۳۳۔ پس تم میں سے کوئی جو اپنا سب کچھ جو اُس کچھ اُس کے پاس ہے ترک نہ کر دے میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔
34
۳۴۔ نمک اچھا ہے لیکن اگر نمک کا مزہ ختم ہو جائےتو اسے کس طرح نمکین کیا جا سکتا ہے؟۔
35
۳۵۔ نہ تو یہ زمین کے کام کا ہے نہ ہی کھاد کے کام کا ہے ، یہ نمک پھینکنے کے لائق ہے جس کے سننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔