1
۱۔ پِھر اُس نے اُن بارہ کو پاس بُلا کر اُنھیں سب بَد رُوحوں پر قُدرَت اور بِیمارِیوں کو دُور کرنے کے لیے اِختِیار بخْشا۔
2
۲۔ اور اُنھیں بھیجا کہ خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کریں اور بِیماروں کوشِفا دیں۔
3
۳۔ اور اُن سے کہا کہ راہ کے لیے کُچھ نہ لینا۔ نہ عَصا، نہ تھیلا، نہ روٹی، نہ رُوپِیہ، نہ دو دو کُرتے رکھنا۔
4
۴۔ اور جِس گھر میں داخِل ہو وَہِیں رہنا اور وَہِیں سے آگے روانہ ہونا۔
5
۵۔ اور جِس شہر کے لوگ تُمھیں قُبُول نہ کریں۔ اُس شہر سے نِکلتے وَقْت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دینا تاکہ اُن پر گَواہی ہو۔
6
۶۔ چُنان٘چِہ وہ روانہ ہوکر گاؤں گاؤں خُوش خَبَری سُناتے اور ہر جگہ شِفا دیتے گَئے۔
7
۷۔ اور چَوتھائی مُلْک کا حاکِم ہیرودِیسؔ سب اَحوال سُن کر گھبرا گیا کِیُونکہ بعض کہتے تھے کہ یُوحنّاؔ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہَے۔
8
۸۔ اور بعض یہ کہ ایلِیاؔہ ظاہِر ہُوا ہَے اور بعض یہ کہ قدِیم نبِیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہَے۔
9
۹۔ مگر ہیرودِیسؔ نے کہا کہ یُوحنّاؔ کا تو مَیں نے سر کَٹوا دِیا تھا تو اَب یہ کَون ہَے جِس کی بابَت ایسی باتیں سُنتا ہُوں؟ چُنان٘چِہ وہ اُسے دیکھنے کی کوشِش میں رہا۔
10
۱۰۔ پِھر رَسُولوں نے جو کُچھ کِیا تھا لَوٹ کر اُس سے بَیان کِیا اور وہ اُن کو الگ لے کر بَیت صَیداؔ نام ایک شہر کو چلا گیا۔
11
۱۱۔ یہ جان کر بھِیڑ اُس کے پِیچھے گَئی اور وہ خُوشی کے ساتھ اُن سے مِلا اور اُن سے خُدا کی بادشاہی کی باتیں کرنے لگا اور جو شِفا پانے کے مُحتاج تھے اُنھیں شِفا بخْشی۔
12
۱۲۔ جب دِن ڈَھلنے لگا تو اُن بارہ نے آکر اُس سے کہا کہ بِھیڑ کو رُخْصَت کر کہ چاروں طَرف کے گاؤں اور بستِیوں میں جا ٹِکیں اور کھانے کا بندوبست کریں کِیُونکہ ہم یہاں وِیران جگہ میں ہَیں۔
13
۱۳۔ اُس نے اُن سے کہا کہ تُم ہی اُنھیں کھانے کو دو۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس پانچ روٹِیوں اور دو مچھلِیوں سے زِیادہ موجُود نہیں، اگر وہ نہ گَئے تو اُن سب کے لیے ہمیں کھانا مُول لینا ہوگا۔
14
۱۴۔ کِیُونکہ وہ پانچ ہزار مَرد کے قرِیب تھے۔ اُس نے اپنے شاگرِدوں سے کہا کہ اُن کو تخمِیناً پچاس پچاس کی ٹُولِیوں میں بِٹھاؤ۔
15
۱۵۔ اُنھوں نے اُسی طرح کِیا اور سب کو بِٹھایا۔
16
۱۶۔ پِھر اُس نے وہ پانچ روٹِیاں اور دو مَچھلِیاں لِیں اور آسمان کی طَرَف دیکھ کر اُن پر بَرکَت چاہی اور توڑ کر اپنے شاگِردوں کو دیتا گیا کہ لوگوں کے آگے رکھیں۔
17
۱۷۔ اُنھوں نے کھایا اور سب سیر ہوگَئے اور اُن کے بچے ہُوئے ٹُکڑوں کی بارہ ٹوکِریاں اُٹھائی گَئیں۔
18
۱۸۔ جب وہ تنہائی میں دُعا کر رہا تھا اور شاگِرد اُس کے پاس تھے تو ایسا ہُوا کہ اُس نے اُن سے پُوچھا کہ لوگ میری بابَت کیا سمجھتے ہَیں؟
19
۱۹۔ اُنھوں نے جواب میں کہ کہ یُوحنّاؔ بپتِسمہ دینے والا اور بعض ایلِیاؔہ کہتے ہَیں اور بعض یہ کہ قدِیم اَن٘بِیاء میں سے کوئی جی اُٹھا ہَے۔
20
۲۰۔تب اُس نے اُن سے کہا، ’’مگر تُم میری بابَت کیا کہتے ہو؟‘‘ پَطرسؔ نے جواب میں کہا کہ خُدا کا مسِیح۔
21
۲۱۔ اُس نے اُن کو سخْتی سے خبردار کرتے ہُوئے تاکِید کی کہ یہ کِسی سے نہ کہنا۔
22
۲۲۔ اور کہا کہ ضرُور ہَے کہ اِبنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بُزُرگ اور سردار کاہن اور فقِیہہ اُسے رَد کریں اور وہ قَتْل کِیا جائے اور تِیسرے دِن جی اُٹھے۔
23
۲۳۔ اور اُس نے اُن سب سے مزِید یہ کہا کہ اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی کا اِنکار کرے اور ہر روز اپنی صلِیب اُٹھائے اور میرے پِیچھے ہو لے۔
24
۲۴۔ کِیُونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطِر اپنی جان کھوئے وہ اُسے بچائے گا۔
25
۲۵۔ اور آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصِل کرے لیکِن اپنی جان کو کھودے یا اُسے برباد کرلے تو اُسے کیا فائِدہ ہَے؟
26
۲۶۔ کِیُونکہ جو کوئی مُجھ سے اور میری باتوں سے شرمائے گا اِبنِ آدمؔ بھی جب اپنے اور اپنے باپ کے اور پاک فرِشتگان کے جلال میں آئے گا تو اُس سے شرمائے گا۔
27
۲۷۔ لیکِن مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اَب جِتنے یہاں کھڑے ہَیں اُن میں سے بعض ایسے بھی ہَیں جو موت کا مزہ ہرگِز نہ چکھیں گے جب تک وہ خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہ لے۔
28
۲۸۔ پِھر اِن باتوں کے تقرِیباً آٹھ روز بعد ایسا ہُوا کہ وہ پطرسؔ اور یُوحنّاؔ اور یَعقُوبؔ کو ساتھ لے پہاڑ پر دُعا کرنے گیا۔
29
۲۹۔ جب وہ دُعا کر رہا تھا تو ایسا ہُوا کہ اُس کےچہرے کی صُورت بدل گَئی اور اُس کی پوشاک سفید بَرَّاق ہو گَئی۔
30
۳۰۔ اور دیکھو وہ شخْص جو اُس سے باتیں کرنے لگے وہ مُوسیٰؔ اور ایلِیاہؔ تھے۔
31
۳۱۔ یہ جلال میں دِکھائی دِئیے اور اُس کے اِنتِقال کا ذِکْر کرتے تھے جو یروشلِؔیم مین واقِع ہونے کو تھا۔
32
۳۲۔ مگر پطؔرس اور اُس کے ساتھی جِن پر نِیند طاری تھی جب اچھی طرح بیدار ہُوئے تو اُس کے جلال کو اور اُن دو اَشخْاص کو دیکھا جو اُس کے ساتھ کھڑے تھے۔
33
۳۳۔ جب وہ اُس کے پاس سے رُخصَت ہونے لگے تو ایسا ہُوا کہ پطؔرس نے یِسُوعؔ سے کہا، اَے اُستاد! ہمارا رہنا چھا ہَے۔ چنانچہ ہم تِین ڈیرے بنائیں۔ ایک تیرے لیے، ایک مُوسیٰؔ کے لیے اور ایک ایلِیاؔہ کے لیے۔ لیکِن وہ جانتا نہ تھا کہ کیا کہتا ہَے۔
34
۳۴۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ بادَل نے آکر اُن پر سایہ کر لِیا اور جب وہ بادِل میں گِھرنے لگے تو ڈر گَئے۔
35
۳۵۔ اور بادَل میں سے ایک آواز آئی جو کہتی تھی کہ یہ میرا برگُزِیدہ بیٹاہَے، اِس کی سُنو۔
36
۳۶۔ یہ آواز آتے ہی یِسُوعؔ اکیلا پایا گیا اور وہ چُپ رہے اور اُنھوں نے جو باتیں اُن دِنوں میں دیکھی تھِیں اُن کی کِسی کو کُچھ خَبَر نہ دی۔
37
۳۷۔ دُوسرے دِن جب وہ پہاڑ سے اُتر آئے تو ایسا ہُوا کہ ایک بڑی بِھیڑ اُس سے آ مِلی۔
38
۳۸۔ اور دیکھو ایک آدمی نے بِھیڑ میں سے چِلّا کر کہا، ’’ اَے اُستاد! مَیں تیری مِنَّت کرتا ہُوں کہ میرے بیٹے پر نَظَر کر کِیُونکہ وہ میرا اِکلوتا ہَے۔
39
۳۹۔ اور دیکھو ایک رُوح اُسے پکڑ لیتی ہَے اور وہ یکایک چِیخ اُٹھتا ہَے اور اُس کو ایسا مروڑتی ہَے کہ کف بھر لاتا ہَے اور مُشْکِل سے چھوڑتی ہَے اور اُسےزَخْم خورْدَہ کر دیتی ہَے۔
40
۴۰۔ اور مَیں نے تیرے شاگِردوں کی مِنَّت کی کہ اُسے نِکال دیں لیکِن وہ ایسا نہ کر سکے۔‘‘
41
۴۱۔ یِسُوعؔ نے جواب میں کہا، ’’اَے بے اِعتِقاد اور کَج رَو قَوم مَیں کب تک تُمھارے ساتھ رہُوں گا اور تُمھاری برداشْت کرُوں گا؟ اپنے بیٹے کو یہاں لے آ!‘‘
42
۴۲۔ وہ قرِیب آ ہی رہا تھا کہ بَد رُوح نے اُسے پٹک کر مروڑ دِیا مگر یِسُوعؔ نے اُس ناپاک رُوح کو جِھڑکا اور لڑکے کو اچھا کر کے اُسے اُس کے باپ کو واپس سَونپ دِیا۔
43
۴۳۔ اور سب لوگ خُدا کی شان دیکھ کر حَیران تھے۔ لیکِن جِس وَقْت سب لوگ اُس کے کاموں پر جو وہ کرتا تھا تَعَجُّب کر تے تھےتو اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ
44
۴۴۔ اِن باتوں کو اپنے کانوں کے اَندر اُترنے دو کِیُونکہ اِبنِ آدمؔ آدمِیوں کے ہاتھوں میں کِئے جانے کو ہَے کہ اُس سے بے وَفائی کی جائے۔
45
۴۵۔ لیکِن وہ اِس بات کو نہ سمجھے بلکہ یہ اُن سے پوشِیدہ رکھی گَئی تاکہ اُسے جان نہ سکیں اور اِس بات کی بابت اُس سے پُوچھنے سے ڈرتے تھے۔
46
۴۶۔ پِھر اُن میں یہ بَحْث شُرُوع ہُوئی کہ اُن سب میں بڑا کَون ہَے؟
47
۴۷۔ لیکِن یِسُوعؔ نے اُن کے دِلوں کا خیال معلُوم کر کے ایک بچّے کو لِیا اور اپنے پاس کھڑا کر کے اُن سے کہا۔
48
۴۸۔ جو کوئی اِس بچّے کو میرے نام پر قُبُول کرتا ہَے وہ مُجھے قُبُول کرتا ہَے اور جو مُجھے قُبُول کرتا ہَے وہ میرے بھیجنے والے کو قُبُول کرتا ہَے کِیُونکہ جو تُم میں سب سے چھوٹا ہَے وہی بڑا ہے۔
49
۴۹۔ یُوحنّاؔ نے جواب میں کہا کہ اَے اُستاد! ہم نے کِسی کو تیرے نام سے بدرُوحیں نِکالتے دیکھا اور ہم نے اُسے مَنع کِیا کِیُونکہ پیروی کرنے میں وہ ہمارے ساتھ نہیں۔
50
۵۰۔ لیکِن یسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ اُسے مَنع نہ کرنا کِیُونکہ جو تُمھارے خِلاف نہیں وہ تُمھاری طرف ہَے۔
51
۵۱۔ اور ایسا ہُوا کہ جب اُس کے اُوپر اُٹھائے جانے کے دِن نزدِیک تھے تو اُس نے یروشلِؔیم جانے کو کَمَرْ باندھی۔
52
۵۲۔ اور اپنے آگے قاصِد بھیجے۔ وہ جاکر سامرِیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہُوئے تاکہ اُنھیں اُس کی بابت قائِل کریں۔
53
۵۳۔ لیکِن اُنھوں نے اُس کو ٹِکنے نہ دِیا کِیُونکہ وہ یروشلِؔیم کی سَمْت کو گامزَن تھا۔
54
۵۴۔ یہ دیکھ کر اُس کے شاگِرد یَعقُوبؔ اور یُوحنّاؔ نے کہا، ’’اَے خُداوَند کیا تُو چاہتا ہَے کہ ہم حُکْم دیں کہ آسمان سے آگ نازِل ہو کہ اُنھیں بَھسْم کر دے؟‘‘
55
۵۵۔ مگر اُس نے مُڑ کر اُنھیں جِھڑکا [اور کہا کہ کیا تُم نہیں جانتے کہ تُم کِس رُوح کے ہو؟
56
۵۶۔ اِس لیے کہ اِبنِ آدمؔ لوگوں کی جان ہلاک کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہَے]۔ تب وہ کِسی اَور گاؤں میں چلے گَئے۔
57
۵۷۔ جب وہ راہ میں چلے جاتے تھے تو کِسی نے اُس سے کہا کہ جہاں کہِیں تُو جائے مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا۔
58
۵۸۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ لومڑِیوں کے بَھٹ ہوتے ہَیں اور ہَوا کے پرِندوں کے گھونْسلے مگر اِبنِ آدمؔ کے لیے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔
59
۵۹۔ پِھر اُس نے دُوسرے سے کہا کہ میرے پِیچھے چل۔ اُس نے کہا کہ اَے خُداوَند! مُجھے اِجازت دے کہ پہلے جاکر اپنے باپ کو دَفَن کرُوں۔
60
۶۰۔ اُس نے اُس سے کہا کہ مُردوں کو اپنے مُردے دَفَن کرنے دے لیکِن تُو جاکر خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کر۔
61
۶۱۔ ایک اَور نے بھی کہا، ’’اَے خُداوَند! مَیں تیرے پِیچھے چلُوں گا لیکِن پہلے مُجھے اِجازت دے کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رُخْصَت ہو آؤں۔‘‘
62
۶۲۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا، ’’جو کوئی اپنا ہاتھ ہَل پر رَکھ کر پِیچھے دیکھتا ہَے وہ خُدا کی بادشاہی کے لائِق نہیں۔‘‘