1
۱۔ اِن باتوں کے بعد خُداوَند نے بَہتَّر اَور آدمی مُقَرَّر کِئے اور اُن کو دو دو کر کے ہر اُس شہر اور عِلاقہ میں بھیجا جہاں وہ خُود بھی جانے کو تھا۔
2
۲۔ اور وہ اُن سے کہنے لگا کہ فَصْل تو بہت ہَے لیکِن مزدُور تھوڑے ہَیں اِس لیے فَصْل کے مالِک کی مِنَّت کرو کہ اپنی فَصْل کاٹنے کے لیے مزدُور بھیجے۔
3
۳۔ جاؤ! دیکھو! مَیں تُمھیں ایسے بھیجتا ہُوں گویا بَرّوں کو بھیڑِیوں کے بِیچ!
4
۴۔ نہ بٹوا لے جاؤ، نہ تھیلی، نہ جُوتے اور نہ راہ میں کِسی کو سَلام کرو۔
5
۵۔ اور جِس گھر میں داخِل ہو پہلے کہو کہ اِس گھر کی سلامتی ہو۔
6
۶۔ اگر وہاں سلامتی کا کوئی فرزَند ہُوا تو تُمھارا سَلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تُم پر لَوٹ آئے گا۔
7
۷۔ اُسی گھر میں رہو اور جو کُچھ اُن سے مِلے کھاؤ پِیؤ کِیُونکہ مزدُور اپنی مزدُوری کا حَقدار ہَے۔ گھر پر گھر تبدِیل نہ کرتے رہو۔
8
۸۔ اور جِس شہر میں داخِل ہو اور وہ تُمھیں قُبُول کریں تو جو کُچھ تُمھارے سامنے رکھا جائے کھاؤ۔
9
۹۔ اور وہاں کے بِیماروں کو شِفا دو اور اُن سے کہو کہ خُدا کی بادشاہی تُمھارے نزدِیک آ پہنچی ہَے۔
10
۱۰۔ لیکِن جِس شہر میں داخِل ہو اور وہ تُمھیں قُبُول نہ کریں تو اُس کے چَوراہوں پر جاکر کہو کہ
11
۱۱۔ ہم اِس گَرد کو بھی تُمھارے سامنے جھاڑ دیتے ہَیں جو تُمھارے شہر سے ہمارے پاؤں پر لگی ہَے۔ مگر یہ جان لو کہ خُدا کی بادشاہی نزدِیک آ پہنچی ہَے۔
12
۱۲۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُس دِن سدُومؔ کا حال اُس شہر کے حال سے زِیادہ برداشْت کے لائِق ہوگا۔
13
۱۳۔ اَے خُرازِینؔ! تُجھ پر اَفسوس! اَے بَیت صَیداؔ تُجھ پر اَفسوس! کِیُونکہ جو مُعْجِزات تُم میں ظاہِر ہُوئے اگر صُورؔ اور صَیداؔ میں ظاہِر ہوتے تو وہ ٹاٹ اَوڑھ کر اور راکھ میں بَیٹھ کر کب کے تَوبہ کر لیتے۔
14
۱۴۔ مگر عَدالَت میں صُورؔ اور صَیداؔ کا حال تُمھارے حال سے زِیادہ برداشْت کے لائِق ہوگا۔
15
۱۵۔ اور اَے کفر نَحُومؔ تُجھے آسمان تک بُلند نہیں کِیا جائے گا تُجھے تو عالِم اَرواح میں اُتارا جائے گا۔
۱۶۔ جو تُمھاری سُنتا ہَے وہ میری سُنتا ہَے اور جو تُمھاری حَقارَت کرتا ہَے وہ میری حَقارَت کرتا ہَے اور جو میری حَقارَت کرتا ہَے وہ میرے بھیجنے والے کی حَقارَت کرتا ہَے۔
17
۱۷۔ وہ بَہتَّر خُوش ہو کر واپَس آئے اور کہنے لگے، ’’ اَے خُداوَند تیرے نام سے بد رُوحیں بھی ہمارے تابِع ہَیں۔‘‘
18
۱۸۔ اُس نے اُن سے کہا، ’’ مَیں نے شَیطان کو آسمانی بجلی کی طرح گِرتے دیکھا ہَے۔
19
۱۹۔ دیکھو! مَیں نے تُمھیں سانپوں اور بِچھُّوؤں کو کُچلَنے اور دُشمن کی ساری قُدْرَت پر غالِب آنے کا اِختِیار دِیاہَے اور تُمھیں ہرگِز کِسی چِیز سے ضَرَر نہ پہنچے گا۔
20
۲۰۔ تو بھی اِس سے خُوش نہ ہو کہ اَرواح تُمھارے تابِع ہَیں بلکہ اِس سے خُوش ہو کہ تُمھارے نام آسمان پر لِکھے ہُوئے ہَیں۔ ‘‘
21
۲۱۔ اُسی گَھڑی وہ رُوحُ الْقُدس سے خُوشی میں بھَر گیا اور کہنے لگا، اَے باپ آسمان اور زمِین کے خُداوَند! مَیں تیری حَمْد کرتا ہُوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عَقلْمندوں سے پوشِیدہ رکھیں اور چھوٹے بچّوں پر ظاہِر کِیں۔ ہاں اَے باپ! کِیُونکہ تیری خُوشنُودی اِسی میں تھی۔
22
۲۲۔ میرے باپ کی طَرف سے سب کُچھ مُجھے سون٘پا گیا ہَے اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سِوائے باپ کے،اور باپ کو سِوائے بیٹے کے اور سِوائے اُس کے جِس پر بیٹا اُسے ظاہِر کرے گا۔ ‘‘
23
۲۳۔ اور شاگِردوں کی طَرف مُتَوَجّہ ہو کر خاص اُن ہی سے کہا، ’’ مُبارَک ہَیں اِن باتوں کو دیکھنے والی آنکھیں جِنھیں تُم دیکھتے ہو۔
24
۲۴۔ کِیُونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بہت سے اَن٘بِیاء اور بادشاہوں کی آرزُو تھی کہ جو تُم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھ پائے اور جو تُم سُنتے ہو سُنیں مگر نہ سُن پائے۔ ‘‘
25
۲۵۔ اور دیکھو ایک عالِمِ شَرع اُٹھا اور یہ کہہ کر اُس کی آزمایش کرنے لگا کہ اَے اُستاد! مَیں کیا کرُوں کہ ہمیشہ کی زِندگی کا وارِث بنُوں؟
26
۲۶۔ اُس نے اُس سے کہا، ’’شَرع میں کیا لِکھا ہَے؟ تُو کِس طرح پڑھتا ہَے؟‘‘
27
۲۷۔ اُس نے جواب میں کہا کہ خُدا وَند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقَت اور اپنی ساری عَقْل سے مُحَبَّت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانِن٘د مُحَبَّت رکھ۔
28
۲۸۔ اُس نے اُس سے کہا، ’’تُو نے ٹِھیک جواب دِیا یہی کر تو تُو جِیئے گا۔‘‘
29
۲۹۔ مگر اُس نے خُود کو راسْتباز ٹھہرانے کی غَرَض سے یِسُوعؔ سے پُوچھا، ’’پِھر میرا پڑوسی کَون ہَے؟‘‘
30
۳۰۔ یِسُوعؔ نے جواب میں کہا، ’’ایک آدمی یروشلِؔیم سے یریحُوؔ کی طَرف جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں میں گِھر گیا۔ اُنھوں نے اُس کے کپڑے اُٹار لیے اور مارا بھی اور اَدھ مُؤا چھوڑ کر چلے گَئے۔
31
۳۱۔ اب اِتفاقاً اُسی راہ سے ایک کاہن کا گُزَر ہُوا۔ وہ اُسے دیکھ کر کَترا کر چلا گیا۔
32
۳۲۔ پِھر اِسی طَرح ایک لاوَیؔ اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کَترا کر چلاگیا۔
33
۳۳۔ لیکِن ایک سامؔری سَفَر کرتے کرتے وہاں آ نِکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے تَرَس کھایا۔
34
۳۴۔ اور اُس کے پاس آکر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کرکے سرائے میں لے گیا اور اُس کی نِگَہداشت کی۔
35
۳۵۔دُوسرے دِن دو دِینار نِکال کر بَھٹیارے کو دِئیے اور کہا کہ اِس کی دیکھ بھال کرنا او جو کُچھ اِس سے زِیادہ خرچ ہوگا، مَیں پِھر آکر تُجھے اَدا کر دُوں گا۔
36
۳۶۔اَب تُجھے کیا لگتا ہَے کہ اُن تِینوں میں سے اُس شخْص کا جو ڈاکُوؤں میں گِھر گیا تھا، کون پڑوسی ٹھہرا؟‘‘
37
۳۷۔ اُس نے کہا، ’’وہ جِس نے اُس پر رَحْم کِیا۔‘‘ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا، ’’جا! تُو بھی ایسا ہی کر۔‘‘
38
۳۸۔ پِھر جب وہ آگے چلے تو وہ ایک گاؤں میں داخِل ہُوا اور مرتھاؔ نام کی ایک عَورت نے اُسے اپنے گھر میں اُتارا۔
39
۳۹۔ اور مریمؔ نام اُس کی ایک بہن تھی۔ وہ یِسُوعؔ کے پاؤں کے پاس بَیٹھ کر اُس کا کلام سُن رہی تھی۔
40
۴۰۔ لیکِن مرتھاؔ خِدمت کرتے کرتے گھبرا گَئی۔ چُنان٘چِہ اُس کے پاس آکر کہنے لگی، ’’اَے خُداوَند! کیا تُجھے فِکْر نہیں کہ میری بہن نے خِدمت کرنے کو مُجھے اکیلا چھوڑ دِیا ہَے؟ اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔‘‘
41
۴۱۔ خُداوَند نے جواب میں اُس سے کہا، ’’مرتھا! مرتھا!تُو تو بہت سے باتوں کی فِکْر و تَرَدُّد میں ہَے۔
42
۴۲۔ جب کہ ایک اَور ضرُوری بات بھی ہَے اور مریمؔ نے وہ اچھا حِصّہ چُن لِیا ہَے جو اُس سے چِھینا نہ جائے گا۔‘‘