1
۱۔ تھوڑے ہی عَرصہ بعد یُوں ہُوا کہ وہ ہر شہر اور گاؤں سے گُزرتے ہُوئے خُدا کی بادشاہی کی خُوش خَبری کی مُنادی کرتا پِھرا اور وہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔
2
۲۔ اور کَئی عَورتیں جِنھوں نے بُری اَرواح اور بِیمارِیوں سے شِفا پائی تھی یَعنی مریمؔ جو مگدلینیؔ کہلاتی تھی جِس میں سے سات بدَرُوحیں نِکلی تھِیں۔
3
۳۔ اور یُوأؔنہ ہیرودِیسؔ کے مُختارِ کار خُوزہؔ کی بِیوی اور سُوسنّاؔہ اور دِیگر عَورتیں بھی تِھیں جو اپنے وسائِل سے اُن کی خِدمت کرتی تھِیں۔
4
۴۔ پِھر جب بِھیڑ بہت بڑھنے لگی اور ہر شہر کے لوگ اُس کے پاس چلے آتے تھے، اُس نے تمثِیل میں کہا کہ
5
۵۔ ایک بونے والا اپنا بِیج بونے نِکلا اور بوتے وَقْت اُس سے کُچھ راہ کے کِنارے گِرا اور رَوندا گیا اور ہَوا کے پرِندوں نے اُسے چُگ لِیا۔
6
۶۔ اور کُچھ چٹان پر گِرا اور اُگتے ہی سُوکھ گیا کِیُونکہ اُس کو نَمی نہ پہنچی۔
7
۷۔ اور کُچھ جھاڑِیوں میں گِرا اور جھاڑِیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُسے دبا لِیا۔
8
۸۔ اور کُچھ اچھی زمِین میں گِرا اور اُگ کر سَو گُنا پَھل لایا۔ یہ کہہ کر اُس نے پُکارا، ’’ جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے! ‘‘
9
۹۔ اُس کے شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ اِس تمثِیل کا کیا مَطلب ہَے؟
10
۱۰۔ اُس نے کہا، ’’تُمھیں خُدا کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گَئی ہَے مگر اَوروں کو تماثِیل میں سُنایا جاتا ہَے تاکہ دیکھتے ہُوئے نہ دیکھیں اور سُنتے ہُوئے نہ سمجھیں۔
11
۱۱۔ وہ تمثِیل یہ ہَے کہ بِیج خُدا کا کلام ہَے۔
12
۱۲۔ راہ کے کِنارے کے وہ ہَیں جِنھوں نے سُنا تو سہی، پر اَبلِیس آکر کلام کو اُن کے دِل سے چِھین لے جاتا ہَے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اِیمان لاکر نَجات پائیں۔
13
۱۳۔ اور چٹان پر کے وہ ہَیں جو سُن کر کلام کو خُوشی سے قبُول تو کر لیتے ہَیں لیکِن جَڑ نہیں رکھتے اور کُچھ عَرصہ تک اِیمان رکھ کر آزمایِش کے وَقْت پِھر جاتے ہَیں۔
14
۱۴۔ اور جو جھاڑِیوں میں گِرا اُس سے وہ لوگ مُراد ہَیں جِنھوں نے سُنا لیکِن ہوتے ہوتے اِس زِندگی کی فِکْروں اور دَولَت اور عیش وعِشرت میں پھنْس جاتے ہَیں اور اُن کا پَھل پکتا نہیں۔
15
۱۵۔ مگر اچھی زمِین پر کے وہ ہَیں جو کلام کو سُن کر عُمدہ اور نیک دِل میں سنبھالے رہتے اور صَبْر سے پَھل لاتے ہَیں۔
16
۱۶۔ کوئی شخْص چراغ جلا کر برتن سے نہیں ڈھانپتا، نہ ہی پلنگ کے نِیچے رکھتا ہَے بلکہ چَراغ دان پر رکھتا ہَے تاکہ اَندر آنے والوں کو روشنی دِکھائی دے۔
17
۱۷۔ کِیُونکہ پوشِیدہ چِیزوں میں سے کوئی ایسی نہیں جو ظاہِر نہ کی جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسا بھید ہَے جو عِلْم میں نہ لایا جائے یا روشنی میں نہ لایا جائے گا۔
18
۱۸۔ چُنان٘چِہ خَبَردار رہو کہ تُم کِس طرح سُنتے ہو کِیُونکہ جِس کے پاس ہَے اُسے دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہیں ہَے، اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جِس کی بابت اُسے گُمان ہو کہ اُس کا ہَے۔ ‘‘
19
۱۹۔ پِھر اُس کی ماں اور اُس کے بھائی اُس کے پاس آئے مگر بِھیڑ کے سبب سے اُس تک پہنچ نہ سکے۔
20
۲۰۔ اور اُسے خبَر دی گَئی کہ تیری ماں اور تیرے بھائی باہِر کھڑے ہَیں اور تُجھ سے مِلنا چاہتے ہَیں۔
21
۲۱۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ میری ماں اور میرے بھائی تو یہ ہَیں جو خُدا کا کلام سُنتے اور اُس پر عَمَل کرتےہَیں۔
22
۲۲۔ پِھر اُس دوران ایک دِن ایسا ہُوا کہ وہ اپنے شاگِردوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہُوا اور اُس نے اُن سے کہا کہ آؤ جِھیل کے اُس پار چلیں۔ چُنان٘چِہ وہ کشتی کھینے لگے۔
23
۲۳۔ مگر جب وہ کشتی چلا رہے تھے تو وہ سو گیا اور جِھیل پر تُند ہَوا چلنے لگی اور کشتی پانی سے بھرنے لگی اور وہ خطرے میں تھے۔
24
۲۴۔ اُنھوں نے پاس آکر اُسے جگایا اور کہا کہ اَے اُستاد! اَے اُستاد! ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہَیں۔ اُس نے اُٹھ کر ہَوا اور پانی کے زور شور کو جِھڑکا اور دونوں تھم گَئے اور اَمْن ہوگیا۔
25
۲۵۔ اُس نے اُن سے کہا، ’’تُمھارا اِیمان کہاں ہَے؟‘‘ وہ ڈر گَئے اور تَعَجُّب کرکے آپس میں کہنے لگے کہ آخِر یہ کَون ہَے کہ ہَوا اور پانی کو حُکْم دیتا ہَے اور وہ اُس کی مانتے ہَیں؟
26
۲۶۔ پِھر وہ کھیتے کھیتے گراسِینیوں کے عِلاقہ تک جا پہنچے جو گلِیلؔ کے مُقابِل ہَے۔
27
۲۷۔ جب وہ کِنارے پر اُتر کر آگے گیا تو شہر سے باہِر اُسے ایک آدمی مِلا جِس میں بَد رُوحیں تھِیں اور اُس نے بڑی مُدّت سے کپڑے نہ پہنے تھے اور وہ گھر میں نہیں بلکہ قبروں میں رہا کرتا تھا۔
28
۲۸۔ اُس نے یِسُوعؔ کو دیکھا تو چِیختے چِلّاتے ہُوئے اُس کے آگے گِر کر بُلند آواز سے کہنے لگا، ’’اَے یِسُوعؔ! خُدا تعالیٰ کے بیٹے میرا تُجھ سے کیا معاملہ ہَے؟ تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ مُجھے عذاب میں نہ ڈال۔‘‘
29
۲۹۔ کِیُونکہ وہ اُس ناپاک رُوح کو حُکْم دیتا تھا کہ اِس آدمی میں سے نِکل آ۔ اِس لیے کہ وہ اکثر اُس کو جکڑ لیتی تھی اور خواہ لوگ اُسے زِنجِیروں سے باندھتے اور بیڑِیاں ڈال کر قابُو میں رکھتے تھے تو بھی وہ زنجِیروں کو توڑ ڈالتا تھا اور بد رُوح اُس کو وِیرانوں میں بھگائے پِھرتی تھی۔
30
۳۰۔ تب یِسُوعؔ نے اُس سے پُوچھا، ’’ تیرا کیا نام ہَے؟‘‘ اُس نے کہا، ’’لشکر! ‘‘ کِیُونکہ اُس میں بہت سے بد رُوحیں آچکی تھِیں۔
31
۳۱۔ اور وہ اُس کی مِنّت کرنے لگِیں کہ ہمیں اَتھاہ گڑھے میں جانے کا حُکْم نہ دے۔
32
۳۲۔ وہاں پہاڑ پر سُوَروں کا ایک بڑا غَول چَر رہا تھا اُنھوں نے اُس کی مِنّت کی کہ ہمیں اُن کے اَندر جانے دے۔ اُس نے اُنھیں جانے دِیا۔
33
۳۳۔ اور بَدرُوحیں اُس آدمی میں سے نِکل کر سُوَروں میں داخِل ہو گَئیں اور غَول سِیدھی ڈھلان سے کُود کر جِھیل میں جا پڑا اور ڈُوب مَرا۔
34
۳۴۔ یہ ماجرا دیکھ کر چرانے والے بھاگے اور جاکرشہر اور گاؤں میں خَبَر دی۔
35
۳۵۔لوگ وہ ماجرا دیکھنے نِکلے جو رُونُما ہُوا تھا اور یِسُوعؔ کے پاس آکر اُس آدمی کو جِس میں سے بدرُوحیں نِکلی تھِیں، کپڑے پہنے اور یِسُوعؔ کے قدموں میں باہوش بیٹھے پایا اور ڈر گَئے۔
36
۳۶۔ اور دیکھنے والوں نے اُنھیں خَبَر دی کہ اُس بد رُوح گِرفتہ کی کیسے خَلاصِی ہُوئی ہَے۔
37
۳۷۔ اور گراسِینیوں کے گِردونواح کے بے شُمار لوگوں نے اُس سے درخواست کی کہ ہمارے پاس سے چلا جا کِیُونکہ اُن پر بڑی دَہشت چھاگَئی تھی۔ چُنان٘چِہ وہ کَشتی میں بَیٹھ کر واپس گیا۔
38
۳۸۔ لیکِن جِس شخْص میں سے بد رُوحیں نِکل گَئی تھِیں وہ اُس کی مِنّت کر کے کہنے لگا کہ مُجھے اپنے ساتھ لے چل مگر یِسُوعؔ نے اُسے رُخصت کر کے کہا،
39
۳۹۔ ’’اپنے گھر واپس جاکر بتا کہ خُدا نے تیرے لیے کیسے بڑے کام کِئے۔‘‘ وہ روانہ ہُوا اور شہر میں جاکر وہ سب کُچھ بَیان کرنے لگا جو یِسُوعؔ نے اُس کے لیے کِیا تھا۔
40
۴۰۔ جب یِسُوعؔ واپس پہنچا تو بِھیڑ نے خُوشی سے اُس کا اِستقبال کِیا کِیُونکہ سب اُس کی راہ تکتے تھے۔
41
۴۱۔ اور دیکھو یاؔئیر نام ایک شخْص جو عِبادت خانہ کا سردار تھا آیااوریِسُوعؔ کے قدموں پر گِر کر اُس سے مِنّت کی کہ میرے گھر چل۔
42
۴۲۔ کِیُونکہ اُس کی اِکْلَوتی بیٹی جو قریباً بارہ برس کی تھی قَرِیبُ الْمَرگ تھی اور جب وہ جارہا تھا تو لوگ اُس پر گِرے پڑتے تھے۔
43
۴۳۔ اور ایک عَورت نے جِس کے بارہ برس سے خُون جاری تھا اور اپنا سارا مال طبِیبوں پر خرچ کر چُکی تھی اور کِسی کے ہاتھ سے تندرُست نہ ہو سکی تھی۔
44
۴۴۔ اُس کے پِیچھے آکر اُس کی پوشاک کا سِرا چُھؤا اور اُسی دم اُس کا خُون بہنا بند ہوگیا۔
45
۴۵۔ اِس پر یِسُوعؔ نےکہا، ’’وہ کَون ہَے جِس نے مُجھے چھُؤا ہَے؟‘‘ جب سب اِنکار کرنے لگے تو پطرسؔ اور اُس کے ساتِھیوں نے کہا کہ اَے اُستاد! لوگ تُجھے دباتے اور تُجھ پر گِرے پڑتے ہَیں۔
46
۴۶۔ مگر یِسُوعؔ نے کہا کہ کِسی نے مُجھے چُھؤا تو ہَے کِیُونکہ مَیں نے جانا کہ قُوَّت مُجھ سے نِکلی ہَے۔
47
۴۷۔ جب اُس عَورت نے دیکھا کہ مَیں چِھپ نہیں سکی تو کانپتی ہُوئی آئی اور اُس کے آگے گِر کر سب لوگوں کے سامنے بَیان کِیا کہ مَیں نے کِس وجہ سے اُسے چُھؤا اور کِس طرح اُسی دم شِفا پا گَئی۔
48
۴۸۔ اُس نے اُس سے کہا، ’’بیٹی! تیرے اِیمان سے تُجھے شِفا ہُوئی ہَے۔ سَلامَت چلی جا!‘‘
49
۴۹۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عِبادت خانہ کے سردار کے ہاں سے کِسی نے آکر کہا کہ تیری بیٹی مَر گَئی۔ اُستاد کو تکلِیف نہ دے۔
50
۵۰۔ یِسُوعؔ نے سُن کر اُسے جواب دِیا کہ خُوف نہ کر فَقَط اِعتِقاد رَکھ! وہ بچ جائے گی۔
51
۵۱۔ اور گھر میں پہنچ کر پطرسؔ اور یُوحنّاؔ اور یَعقُوبؔ اور لڑکی کے باپ اور ماں کے سِوا کِسی کو اپنے ساتھ اَندر نہ جانےدِیا۔
52
۵۲۔ اور سب اُس کے لیے روتے اور ماتم کرتے تھے مگر اُس نے کہا، ’’ماتم نہ کرو۔ وہ مَر نہیں گَئی بلکہ سوتی ہَے۔‘‘
53
۵۳۔ وہ اُس پر ہَنْسنے لگے کِیُونکہ جانتے تھے کہ وہ مَر گَئی ہَے۔
54
۵۴۔ مگر اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور پُکار کر کہا،’’اَے لڑکی اُٹھ!‘‘
55
۵۵۔ اُس کی رُوح پِھر آئی اور وہ اُسی دم اُٹھی۔ پِھر یِسُوعؔ نے حُکْم دِیا کہ لڑکی کو کُچھ کھانے کو دِیا جائے۔
56
۵۶۔ اُس لڑکی کے والِدَین حَیران ہُوئے لیکِن اُس نے اُنھیں تاکِید کی کہ جو کُچھ ہُوا اُس کا ذِکْر کِسی سے نہ کریں۔