1
۱۔ جب وہ سامِعِین کے سامنے اپنی تمام باتیں بَیان کر چُکا توکَفر نحُومؔ میں آیا۔
2
۲۔ اُس وَقْت کِسی صُوبہ دار کا خاص نوکر جو اُس کے لیے بیش قَدر تھا بِیماری کے باعِث قرِیب المَرگ تھا۔
3
۳۔ اُس نے یِسُوعؔ کی خبَر سُن کر یَہُودِیوں کے کَئی بُزرگان کو اُس کے پاس بھیجا اور اُس سے درخواست کی کہ آکر میرے نوکر کو بچالے۔
4
۴۔ وہ یِسُوعؔ کے پاس آئے اور اُس کی بڑی مِنّت کر کے کہنے لگے کہ وہ اِس لائِق ہَے کہ تُو اُس کی خاطِر یہ کرے۔
5
۵۔ کِیُونکہ وہ ہماری قَوم سے مُحَبَّت رکھتا ہَے اور ہمارے لیے عِبادت خانہ اُسی نے بنوایا ہَے۔
6
۶۔یِسُوعؔ اُن کے ساتھ جارہا تھا اور ابھی اُس گھرسے زِیادہ دُور نہ تھا کہ صُوبہ دار نے چند دوستوں کی معرِفَت اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوَند! تکِلیف نہ کر کِیُونکہ مَیں اِس لائِق نہیں کہ تُو میری چھت کے نِیچے آئے۔
7
۷۔ اِسی سبب سے مَیں نے خُود کو بھی تیرے پاس آنے کے لائِق نہ سمجھا بلکہ زبان سے کہہ دے تو میرا خادِم شِفا پائے گا۔
8
۸۔ کِیُونکہ مَیں بھی زیرِ اِختِیار تَعِینَات کِیا گیا ہُوں اور سِپاہی میرے ماتَحت ہَیں اور جب ایک سے کہتا ہُوں جا تو وہ جاتا ہَے اور دُوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہَے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہَے۔
9
۹۔ یِسُوعؔ نے یہ سُن کر اُس پر تَعَجُّب کِیا اور اُس بھِیڑ کی طَرَف پِھر کر جو اُس کے پِیچھے آتی تھی یہ کہا کہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مَیں نے ایسا بڑا اِیمان اِسرائِیلؔ میں بھی نہیں پایا۔
10
۱۰۔ اور بھیجے ہُوؤں نے گھر واپس جاکر اُس نوکر کو بِالْکُل تندرُست پایا۔
11
۱۱۔ اور اَگلے روز ایسا ہُوا کہ وہ نائِینؔ نام ایک شہر کو گیا اور اُس کے شاگِرد اور بڑی تعداد میں لوگ بھی اُس کے ہمراہ تھے۔
12
۱۲۔ جب وہ شہر کے پھاٹَک کے نزدِیک پہُنچا تو دیکھو ایک مُردے کو باہِر لیے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اِکلوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر میں سے ایک بڑی بِھیڑ اُس عَورَت کے ساتھ تھی۔
13
۱۳۔ اُسے دیکھ کر خُداوَند کو ترس آیا اور اُس سے کہا کہ مَت رؤ۔
14
۱۴۔پِھر اُس نے پاس آکر مَیَّت کی چارپائی کو چھُؤا اور اُٹھانے والے رُک گَئے اور اُس نے کہا، ’’اَے جوان! مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، ’اُٹھ! ‘ ‘‘
15
۱۵۔تو وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سَون٘پ دِیا۔
16
۱۶۔ اور سب پر دہشت چھا گَئی اور خُدا کی تمجِید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُوا ہَے اور خُدا نے اپنی اُمَّت پر نَظَر کی ہَے۔
17
۱۷۔ اور اُس سے مُتَعلِّقہ یہ خَبَر سارے یَہُودِؔیہ اور تمام گِردونواح میں پَھیل گَئی۔
18
۱۸۔ اور یُوحنّاؔ کو اُس کے شاگِردوں نے اِن سب باتوں کی خَبَر پہنچائی۔
19
۱۹۔ اِس پر یُوحنّاؔ نے اپنے شاگِردوں میں سے دو کو بُلا کر خُداوَند کے پاس یہ پُوچھنے کو بھیجا کہ آنے والا تُو ہی ہَے یا ہم دُوسرے کی راہ دیکھیں؟
20
۲۰۔ اُنھوں نے اُس کے پاس آکر کہا، ’’یُوحنّاؔ بَبتِسمہ دینے والے نے ہمیں تیرے پاس یہ پُوچھنے کو بھیجا ہَے کہ آنے والا تُو ہی ہَے یا ہم دُوسرے کی راہ دیکھیں؟‘‘
21
۲۱۔ اُسی گھڑی اُس نے بہتیروں کو بِیمارِیوں سے شِفا دی، اَذِیَّتوں اور بَد رُوحوں کو دُور کِیا اور اَندھوں کو بِینائی عَطاکی۔
22
۲۲۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ جو کُچھ تُم نے دیکھا اور سُنا ہَے جاکر یُوحنّاؔ سے بَیان کر دو کہ اَندھے دیکھتے ہَیں، لنگڑے چلتے پِھرتے ہَیں، کوڑھی پاک صاف کِیے جاتے ہَیں، بہرے سُنتے ہَیں، مُردے زِندہ کِیے جاتے ہَیں، غُربا کو خُوش خَبَری سُنائی جاتی ہَے۔
23
۲۳۔ اور مُبارَک ہَے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔
24
۲۴۔ جب یُوحنّاؔ کے قاصِد چلے گَئے تو یِسُوعؔ یُوحنّاؔ کے حَق میں لوگوں سے کہنے لگا کہ تُم بِیابان میں کیا دیکھنے گَئے تھے؟ کیا ہَوا سے ہِلتے ہُوئے سر کنڈے کو؟
25
۲۵۔ تو پِھر کیا دیکھنے گَئے تھے؟ کیا مہِین کپڑے پہنے ہُوئے شخْص کو؟ دیکھو جو چمکدار پوشاک پہنتے اور عیش و عِشرت میں رہتے ہَیں وہ شاہی مَحَلّات میں ہوتے ہَیں۔
26
۲۶۔ تو پِھر تُم کیا دیکھنے گَئے تھے؟ کیا ایک نبی کو؟ ہاں! مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ نبی کو بلکہ نبی سے بالا تر کو۔
27
۲۷۔ یہ وہی ہَے جِس کی بابت لِکھا گیا ہَے کہ دیکھ! مَیں اپنا پَیغمبر تیری پیش رَوی میں بھیجتا ہُوں جو تیرے آگے تیری راہ تَیّار کرے گا۔
28
۲۸۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جِتنے عَورتوں سے پَیدا ہُوئے ہَیں اُن میں سے یُوحنّاؔ بپتِسمہ دینے والے سے بڑاکوئی نہیں لیکِن جو خُدا کی بادشاہی میں کمتر ہَے وہ اُس سے بھی بڑا ہَے۔
29
۲۹۔ اور جب سب لوگوں نے ، حَتّٰی کہ محصُول لینے والوں نے بھی، یہ سُنا تو خُدا کو راسْتباز مان کر یُوحنّاؔ کا بپتِسمہ لینے لگے۔
30
۳۰۔ مگر فرِیسِیوں اور شَرع کے عالِموں نے اُس سے بپتِسمہ نہ لے کر اپنی بابت خُدا کے اِرادہ کو رَد کر دِیا۔
31
۳۱۔ چُنان٘چِہ مَیں اِس زمانہ کے آدمِیوں کو کِس سے تَشْبِیہ دُوں اور وہ کِس کی مانِن٘د ہَیں؟
32
۳۲۔ وہ بازار میں بیٹھے اُن بچّوں کی مانِن٘د ہَیں جو ایک دُوسرے سے فضُول تکرار کرتے ہَیں کہ ہم نے تُمھارے لیے بانْسْلی بجائی اور تُم نہیں ناچے۔ ہم نے نوحہ سرائی کی اور تُم نہ روئے۔
33
۳۳۔ کِیُونکہ یُوحنّاؔ بپتِسمہ دینے والا نہ تو روٹی کھاتا ہُوا آیا نہ مَے پِیتا ہُوا اور تُم کہتے ہو کہ اُس میں بَد رُوح ہَے۔
34
۳۴۔ اِبنِ آدمؔ کھاتا پِیتا آیا اور تُم کہتے ہو کہ دیکھو کھاؤُ اور شرابی آدمی، محصُول لینے والوں اور گُنہگاروں کا یار۔
35
۳۵۔ لیکِن حِکْمَت اپنے سب بچوں کے وسِیلے سے راسْت ثابِت ہُوئی۔
36
۳۶۔ پِھر کِسی فرِیسی نے اُس سے درخواست کی کہ اُس کے ساتھ کھانا کھائے۔ چُنان٘چِہ وہ اُس فرِیسی کے گھر جاکر دستر خوان پر بیٹھا۔
37
۳۷۔ تو دیکھو! اُسی شہر کی ایک عورت جو بَد چَلَن تھی یہ جان کر کہ وہ اُس فرِیسی کے گھر میں کھانا کھانے بَیٹھا ہَے، سنگِ مَرمَر کے عِطْر دان میں عِطْر لائی۔
38
۳۸۔ اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہُوئی پِیچھے کھڑی ہوکر اُس کے پاؤں آنسُوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پُونْچھا اور اُس کے پاؤں بہت چُومے اور اُن پر عِطْر ڈالا۔
39
۳۹۔ جب اُسے دعوت دینے والے فرِیسی نے یہ دیکھا تو اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخْص نبی ہوتا تو جان جاتا کہ یہ عَورت جو اُسے چُھوتی ہَے وہ کَون اور کِیسی ہَے کِیُونکہ وہ بَد چَلَن تھی۔
40
۴۰۔ یِسُوعؔ نے مُخاطِب ہوکر اُس سے کہا، ’’اَے شمعُونؔ مُجھے تُجھ سے کُچھ کہنا ہَے۔‘‘ اور اُس نے کہا، ’’اَے اُستاد فرما! ‘‘
41
۴۱۔’’ کِسی ساہُوکار کے دو قَرْضدار تھے، ایک پانچ سو دِینار کا، دُوسرا پچاس کا۔
42
۴۲۔ جب اُن کے پاس ادا کرنے کو کُچھ نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخْش دِیا۔ چُنان٘چِہ اُن میں سے کَون اُسے سے زِیادہ مُحَبَّت رکھے گا؟‘‘
43
۴۳۔ شمعُونؔ نے جواب میں اُس سے کہا، ’’میرا خیال ہَے وہ جِسے اُس نے زِیادہ بخْشا۔ اُس نے اُس سے کہا، ’’تُو نے ٹِھیک فیصلہ کِیا۔‘‘
44
۴۴۔ اور اُس عَورت کی طرف مُڑ کر اُس نے شمعُونؔ سے کہا، ’’کیا تُو اِس عَورت کو دیکھتا ہَے؟ مَیں تیرے گھر میں داخِل ہُوا۔ تُو نے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دِیا مگر اِس نے میرے پاؤں آنسُوؤں سے بھگو دِئیے اور اپنے بالوں سے پُونچھے۔
45
۴۵۔ تُو نے مُجھے بوسہ نہ دِیا مگر جب سے مَیں آیا ہُوں اِس نے میرے پاؤں چُومنا نہ چھوڑا۔
46
۴۶۔ تُو نے میرے سَر پر تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عِطْر مَلا ہَے۔
47
۴۷۔ اِسی لیے مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ اِس کے گُناہ جو بہت تھے مُعاف ہُوئے کِیُونکہ اِس نے بہت مُحَبَّت کی مگر جِس کے تھوڑے گُناہ مُعاف ہُوئے وہ تھوڑی مُحَبَّت کرتا ہَے۔‘‘
48
۴۸۔ اور اُس عَورت سے کہا، ’’ تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے۔ ‘‘
49
۴۹۔ اِس پر وہ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اپنے جی میں کہنے لگےکہ یہ کَون ہَے جو گُناہ بھی مُعاف کرتا ہَے؟
50
۵۰۔ مگر اُس نے عَورت سے کہا، ’’تیرے اِیمان نے تُجھے بچا لِیا ہَے۔ سَلامت چلی جا!‘‘