1
۱۔پِھر ایسا ہُوا کہ خُدا کا کلام سُننے کے لیے بِھیڑ اُس کے گِرد جمع ہو رہی تھی اور وہ گنیسرتؔ کی جِھیل کے کِنارے کھڑا تھا۔
2
۲۔ اُس نے جِھیل کے کِنارے دو کشتِیاں لگی دیکِھیں لیکِن مچھیرے اُن پر سے اُتر کر جال دھو رہے تھے۔
3
۳۔ اُس نے اُن کشتِیوں میں سے ایک پر چڑھ کر جو شمعُونؔ کی تھی، اُس سے دَرخواست کی کہ کِنارے سے ذرا ہٹا لے چل اور وہ کشتی میں بَیٹھ کر لوگوں کو تعلِیم دینے لگا۔
4
۴۔ جب کلام کر چُکا تو شمعُونؔ سے کہا، ’’گہرے میں لے چل اور تُم شِکار کے لیے اپنے جال ڈالو۔‘‘
5
۵۔ شمعُونؔ نے جواب میں کہا، ’’اَے اُستاد ہم نے رات بھر محنت کی اور کُچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہُوں۔‘‘
6
۶۔ جب اُنھوں نے یہ کِیا تو مَچھلِیوں کا بڑا غَول گھیر لائے اور اُن کے جال پَھٹنے لگے۔
7
۷۔ اور اُنھوں نے اپنے شُرکائے کار کو جو دُوسری کشتی پر تھے اِشارہ کِیا کہ آؤ ہماری مدد کرو۔ چُنانچِہ اُنھوں نے آکر دونوں کشتِیاں اِس قَدر بَھر دیں کہ ڈُوبنے لگِیں۔
8
۸۔ شمعُونؔ پطؔرس یہ دیکھ کر یِسُوعؔ کے پاؤں میں گِرا اور کہا، ’’اَے خُداوَند! میرے پاس سے چلا جا کِیُونکہ مَیں گُنہگار آدمی ہُوں۔‘‘
9
۹۔ اِس لیے کہ وہ اور اُس کے ساتھی مچھلِیوں کے اِس شکار سے جو اُنھوں نے کِیا تھا نِہایَت حَیران تھے۔
10
۱۰۔ اور یہی حال زَبدیؔ کے بیٹے یَعقُوبؔ اور یُوحنؔاؔ کا بھی تھا جو شمعُونؔ کے شرِیک کار تھے۔ یِسُوعؔ نے شمعُونؔ سے کہا، ’’خُوف نہ کر، اَب سے تُو آدم گِیری کرے گا۔‘‘
11
۱۱۔ وہ کشتِیوں کو کِنارے پر لے آئے اور سب کُچھ چھوڑ کر اُس کے پِیچھے ہولیے۔
12
۱۲۔ جب وہ ایک شہر میں تھا تو دیکھو کوڑھ سے بَھرا ہُوا ایک آدمی یِسُوعؔ کو دیکھ کر مُنہ کے بَل گِرا اور اُس کی مِنّت کر کے کہنے لگا، ’’اَے خداوَند! اگر تُو چاہے تو مُجھے پاک صاف کر سکتا ہَے۔‘‘
13
۱۳۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چُھوا اور کہا، ’’مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہوجا۔‘‘ اور فوراً اُس کا کوڑھ جاتا رہا۔
14
۱۴۔ اور اُس نے اُسے تاکِید کی کہ کِسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئِیں کاہِن کو دِکھا اور جیسا مُوسیٰؔ نے مُقرّر کِیا ہَے اپنے پاک صاف ہوجانے کی بابت نذر گُزران تاکہ اُن کے لیے گواہی ہو۔
15
۱۵۔ لیکِن اُس کی بابت خبر دُور تک پھیل گَئی اور بُہت سے لوگ اُس کی سُننے اور اپنی بِیمارِیوں سے شِفا کے لیے جمع ہونے لگے۔
16
۱۶۔ مگر وہ وِیران جگہوں میں الگ جا کر دُعا کِیا کرتا تھا۔
17
۱۷۔ اور ایک دِن ایسا ہُوا کہ وہ تعلِیم دے رہا تھا اور اُس کے پاس فرِیسی اور شرع کے مُعلِّم بیٹھے تھے جو گلِیلؔ کے ہر گاؤں اور یہُودِؔیہ اور یروشلِؔیم سے آئے تھے اور خُداوَند کی شِفا بخْش قُدرَت اُس کے ساتھ تھی۔
18
۱۸۔ اور دیکھو کُچھ مَرد ایک آدمی کو جو مفلُوج تھا بِستر پر ڈال کر لائے اور کوشِش کی کہ اُسے اَندر لا کر اُس کے آگے رکھّیں۔
19
۱۹۔ اور جب بِھیڑ کے سبب سے اُسے اَندر لے جانے کی راہ نہ پائی تو کوٹھے پر چڑھ کر کھپریل میں سے اُس کو بِستر سمیت بِیچ میں یِسُوعؔ کے سامنے اُتار دِیا۔
20
۲۰۔ اُس نے اُن کا اِیمان دیکھ کر کہا، ’’اَے آدمی ! تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے۔‘‘
21
۲۱۔ اِس پر فقِیہ اور فرِیسی سوچنے لگے کہ یہ کون ہَے جو کُفر بکتا ہَے؟ خُدا کے سِوا اور کون گُناہ مُعاف کر سکتا ہَے؟
22
۲۲۔یِسُوعؔ نے اُن کے خیالات کو معلُوم کر کے جواب میں اُن سے کہا کہ تُم اپنے دِلوں میں کیا سوچتے ہو؟
23
۲۳۔ زِیادہ آسان کیا ہَے یہ کہنا کہ تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے یا یہ کہ اُٹھ اور چل پِھر ؟
24
۲۴۔ لیکِن اِس لیے کہ تُم جانو کہ اِبنِ آدم کو زمِین پر گُناہ مُعاف کرنے کا اِختِیار ہَے۔ (اُس نے اُس مفلُوج سے کہا)، ’’ مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، ’اُٹھ اور اپنا بِستر اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا‘۔‘‘
25
۲۵۔ اور وہ فوراً اُن کے سامنے اُٹھا اور جِس پر پڑا تھا اُسے اُٹھا کر خُدا کی تمجِید کرتا ہُوا اپنے گھر چلا گیا۔
26
۲۶۔ تب وہ سب نِہایَت حَیران ہُوئے اور خُدا کی تمجِید کرنے لگے اور بَہُت ڈر گَئے اور کہنے لگے کہ آج ہم نے عجِیب کام دیکھے ہَیں۔
27
۲۷۔ وہ اِن واقِعات کے بعد باہِر گیا اور لاوؔی نام ایک محصُول لینے والے کو محصُول کی چَوکی پر بیٹھے دیکھا اور اُس سے کہا، ’’میرے پِیچھے ہو لے‘‘۔
28
۲۸۔ اُس نے سب کُچھ چھوڑا اور اُٹھ کر اُس کے پِیچھے ہو لِیا۔
29
۲۹۔ اور لاوؔی نے اپنے گھر میں اُس کی بڑی ضِیافت کی اور محصُول لینے والوں اور اَوروں کا جو اُن کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے بڑی جماعت تھی۔
30
۳۰۔ تب فرِیسی اور اُن کے فقِیہہ بڑبڑانے اور اُس کے شاگِردوں سے یہ کہنے لگے کہ تُم کِیُوں محصُول لینے والوں اور گُنہگاروں کے ساتھ کھاتے پِیتے ہو؟
31
۳۱۔ یِسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا کہ جو تندرُست ہَیں اُنھیں طبِیب کی ضرُورت نہیں ہوتی بلکہ اُنھیں جو بِیمار ہوں۔
32
۳۲۔ مَیں راسْت بازوں کو نہیں بلکہ گُنہگاروں کو تَوبہ کے لیے بُلانے آیا ہُوں۔
33
۳۳۔ اور اُنھوں نے اُس سے کہا کہ یُوحنّاؔ کے شاگِرد اکثر روزہ رکھتے اور دُعائیں کِیا کرتے ہَیں اور اِسی طرح فرِیسِیوں کے بھی مگر جو تیرے ہَیں وہ کھاتے پِیتے ہَیں۔
34
۳۴۔ یِسُوعؔ نے اُن سے کہا کیا تُم شادی کی ضِیافت گاہ میں براتِیوں سے روزہ رکھوا سکتے ہو جب کہ دُلہا اُن کے ساتھ ہو؟
35
۳۵۔ لیکِن وہ دِن بھی آئیں گے جب دُولہا اُن سے جُدا کر دِیا جائے گا تب وہ اُن دِنوں میں روزہ رکھیں گے۔
36
۳۶۔ اور اُس نے اُن سے ایک تمثِیل بھی کہی کہ کوئی آدمی نئی پوشاک میں سے پھاڑ کر پُرانی پوشاک میں پَیوند نہیں لگاتا ورنہ وہ نئی کو تو پھاڑتا ہی ہَے اور پِھر پُرانی پوشاک نئی پوشاک کے پَیوند کے ہم آہنگ بھی نہیں ہوگی۔
37
۳۷۔ اور کوئی شخْص نئی مَے پُرانی مَشکوں میں نہیں بھَرتا ورنہ نئی مَے مَشکوں کو پھاڑ کر خُود بھی بہہ جائے گی اور مَشکیں بھی برباد ہو جائیں گی۔
38
۳۸۔ بلکہ ضرُور ہَے کہ نئی مَےنئی مَشکوں میں بھری جائے تاکہ دونوں چِیزیں محفُوظ رہیں۔
39
۳۹۔ اور کوئی آدمی پُرانی مَے پِیتے ہی نئی کی خواہِش نہیں کرتا کِیُونکہ کہتا ہَے کہ پُرانی ہی اچھی ہَے۔