باب ۱۳

1 ۱ ۔عِیدِ فَسح سے پیشتر یِسُوعؔ نے جان لِیا کہ اُس کا وَقْت آ پَہُنچا ہَے کہ دُنیا سے رُخصت ہو کر باپ کے پاس جائے تو اپنے اُن لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جِیسی مُحَبَّت کرتا تھا آخِر تک وَیسی ہی مُحَبَّت کرتا رہا۔ 2 ۲۔اور جب اِبلِیس شمعُونؔ کے بیٹے یہُوداہؔ اِسکر یُوتی کے دِل میں ڈال چُکا تھا کہ اُسے پکڑوائے تو شام کا کھانا کھاتے وَقْت۔ 3 ۳۔یِسُوعؔ نے یہ جان کر کہ باپ نے سب چِیزیں اُس کے ہاتھ میں کر دی ہَیں اور وہ خُدا کے پاس سے آیا اور خُدا ہی کے پاس جاتا ہَے۔ 4 ۴۔دسترخوان سے اُٹھ کر اُس نے اپنا لِباس اُتارا اور ایک کَتانی کپڑا لے کر اپنی کمر پر باندھا۔ 5 ۵۔اور اُس کے بعد ایک برتن میں پانی ڈال کر شاگِردوں کے پاؤں دھوئے اور جو کَتانی کپڑا کَمر میں باندھا تھا اُس سے پُونچھنے لگا۔ 6 ۶۔پِھر وہ شمعُونؔ پطرسؔ تک پَہُنچا۔ اُس نے اُس سے کہا، ’’اَے خُداوَند! کیا تُو میرے پاؤں دھوتا ہَے؟‘‘ 7 ۷۔ یِسُوعؔ نے جواباً اُس سے کہا کہ جو کُچھ میں کِیا چاہتا ہُوں تُو فی الوَقْت نہیں جانتا مگر بعد میں جان جائے گا۔ 8 ۸۔پطرسؔ نے اُس سے کہا کہ تُو میرے پاؤں اَبد تک کبھی دھونے نہ پائے گا۔یِسُوعؔ نے جواباً اُس سے کہ اگر مَیں تُجھے نہ دُھوؤں تو میرے ساتھ تیرا کوئی حِصّہ نہیں ہَے۔ 9 ۹۔شمعُونؔ پطرسؔ نے اُس سے کہا کہ اَے خُداوَند صِرْف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔ 10 ۱۰۔یِسُوعؔ نے اُس سے کہا، ’’جو نہا چُکا ہَے اُسے پاؤں کے سِوا اور کُچھ دھونے کی حاجت نہیں بلکہ سراسر پاک ہَے اور تُم پاک ہو لیکِن سب کے سب نہیں۔‘‘ 11 ۱۱۔ چُونکہ وہ اپنے پکڑوانے والے سے واقِف تھا اِس لیے اُس سے کہا کہ تُم سب پاک نہیں ہو۔ 12 ۱۲۔ چُنان٘چِہ جب وہ اُن کے پاؤں دھو چُکا اور اپنے کپڑے پہن کر پِھر بیٹھ گیا تو اُن سے کہا کہ کیا تُم سمجھتے ہو کہ مَیں نے تُمھارے ساتھ کیا کِیا ہَے؟ 13 ۱۳۔ تُم مُجھے اُستاد اور خُداوَند کہتے ہو اور خُوب کہتے ہو کِیُونکہ مَیں ہُوں۔ 14 ۱۴۔سو جب مَیں نے اُستاد اور خُداوَند ہو کر تُمھارے پاؤں دھوئے تو چاہیئے کہ تُم بھی ایک دُوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ 15 ۱۵۔کِیُونکہ مَیں نے تُمھارے لیے ایک طریقہ وَضْع کر دِیاہَے تاکہ جیسا مَیں نے تُمھارے ساتھ کِیا ہَے تُم بھی کِیا کرو۔ 16 ۱۶۔ مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ خادِم اپنے مالِک سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ بھیجا ہُوا بھیجنے والے سے۔ 17 ۱۷۔ اگر تُم یہ باتیں جانتے اور اِن پر عَمَل کرتے ہو تو تُم مُبارَک ہو۔ 18 ۱۸۔ مَیں تُم سب کی بابت نہیں کہتا تاہم جِنھیں مَیں نے چُنا ہَے اُنھیں میں جانتا ہُوں لیکِن یہ اِس لیے ہَے کہ یہ نوِشتہ پُورا ہو کہ ’’ جو میری روٹی کھاتا ہَے اُسی نے مُجھ پر لات اُٹھائی۔‘‘ 19 ۱۹۔اَب مَیں اُس کے ہونے سے پیشتر تُمھیں جَتائے دیتا ہُوں تاکہ جب ہو جائے تو تُم اِیمان لاؤ کہ مَیں وہی ہُوں۔ 20 ۲۰۔ مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جو میرے بھیجے ہُوئے کو قبُول کرتا ہَے وہ مُجھے قبُول کرتا ہَے اور جو مُجھے قبُول کرتا ہَے وہ میرے بھیجنے والے کو قبُول کرتا ہَے۔ 21 ۲۱۔ یِسُوعؔ نے یہ باتیں کہہ کر رُوح میں بے تاب ہوکر گواہی دی کہ مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ تُم میں سے ایک شخْص مُجھے پکڑوائے گا۔ 22 ۲۲۔شاگرِد بے یَقِینی میں مُبتلا ہو کر ایک دُوسرے کو دیکھنے لگے کہ وہ کِس کی نِسبت کہتا ہَے۔ 23 ۲۳۔ اور اُس کے شاگرِدوں میں سے ایک جِسے یِسُوعؔ پیار کرتا تھا یِسُوعؔ کے سینے کی طرف جُھکا ہُوا تھا۔ 24 ۲۴۔سو شمعُونؔ پطرسؔ نے اُس سے اِشارہ کرکے کہا کہ دریافت کر کہ کَون ہَے جِس کی بابت وہ کہتا ہَے؟ 25 ۲۵۔ اُس نے اُسی طرح یِسُوعؔ کی چھاتی کا سہارا لے کر کہا کہ اَے خُداوَند! وہ کَون ہَے؟ 26 ۲۶۔ یِسُوعؔ نے جواباً کہا کہ جِسے مَیں نوالہ ڈبو کر دے دُوں گا وُہی ہَے۔ پِھر اُس نے نوالہ ڈبویا اور لے کر شمعُونؔ اِسکر یُوتی کے بیٹے یہُوداہؔ کو دے دِیا۔ 27 ۲۷۔ اور اِس نوالہ کے ساتھ ہی شَیطان اُس میں سما گیا۔ چُنان٘چِہ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ جو کُچھ تُو کرتا ہَے جلد کر لے۔ 28 ۲۸۔مگر جو کھانا کھانے بَیٹھے تھے اُن میں سے کِسی کو معلُوم نہ ہُوا کہ اُس نے یہ اُس سے کِس لیے کہا۔ 29 ۲۹۔چُونکہ یہُوداہؔ کے پاس پیسوں کی تھیلی رہتی تھی اِس لیے بعض نے سمجھا کہ یِسُوعؔ اُس سے یہ کہتا ہَے کہ جو کُچھ ہمیں عِید کے لیے دَرکار ہَے خرِید لے یا یہ کہ مُحتاجوں کو کُچھ دے دے۔ 30 ۳۰۔ پس وہ نوالہ لے کر فوراً باہِر چلا گیا اور وہ رات کا وَقْت تھا۔ 31 ۳۱۔ جب وہ باہِر چلا گیا تو یِسُوعؔ نے کہا کہ اَب اِبنِ آدمؔ نے جلال پایا اور خُدا نے اُس میں جلال پایا۔ 32 ۳۲۔اگر خُدا نے اُس میں جلال پایا ہَے تو خُدا اُسے بھی خُود میں جلال دے گا بلکہ اُسے فوری طور پر جلال دے گا۔ 33 ۳۳۔اَے بچّو! مَیں تھوڑی دیر مزِید تُمھارے ساتھ ہُوں۔ تُم مُجھے ڈُھونڈو گے اور جیسا مَیں نے یہُودِیوں سے کہا تھا کہ جہاں مَیں جاتا ہُوں تُم نہیں آسکتے وَیسا ہی اَب تُمھیں بھی کہے دیتا ہُوں۔ 34 ۳۴۔مَیں تُمھیں ایک نیا حُکْم دیتا ہُوں کہ ایک دُوسرے سے مُحَبَّت رکھّو کہ جَیسے مَیں نے تُم سے مُحَبَّت رکھّی تُم بھی ایک دُوسرے سے مُحَبَّت رکھّو۔ 35 ۳۵۔ اگر آپس میں مُحَبَّت رکھّو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تُم میرے شاگرِد ہو۔ 36 ۳۶۔ شمعُونؔ پطرسؔ نے اُس سے کہا، ’’اَے خُداوَند! تُو کہاں جاتا ہَے؟ ‘‘ یِسُوعؔ نے جواب دِیا، ’’جہاں مَیں جاتا ہُوں فی الوَقْت تو تُو میرے پِیچھے آ نہیں سکتا مگر بعد میں میرے پِیچھے آئے گا۔‘‘ 37 ۳۷۔ پطرسؔ نے اُس سے کہا، ’’اَے خُداوَند! مَیں تیرے پِیچھے اَب کِیوں نہیں آ سکتا؟ مَیں تو تیرے لیے اپنی جان بھی دے دُوں گا۔‘‘ 38 ۳۸۔یِسُوعؔ نے جواب میں اُس سے کہا، ’’کیا تُو میرے لیے اپنی جان دے گا؟ مَیں تُجھ سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ مُرغ بانگ نہ دے گا جب تک کہ تُو تِین بار میرا اِنکار نہ کر چُکے گا۔‘‘