باب ۷

1 ۱۔ یہ ملکِ صدق ،جو سالم کا بادشاہ اور خدا تعالیٰ کا کاہن تھا جو ابرہام سے تب ملا جب وہ(ابرہام) بادشاہ ہوں کو قتل کرنے کے بعد لوٹ رہا تھا تو اُسے برکت دی۔ 2 ۲۔ ابرہام نے اُسے تمام مالِ غنیمت کا دسواں حصہ دیا، اُس کے نام’’ملکِ صدق‘‘ کا مطلب’’ راست بازی کا بادشاہ‘‘ اور’’ سالم کا بادشاہ‘‘ یعنی ’’ صلح کا بادشاہ‘‘ ہے۔ 3 ۳۔ اُس کا نہ باپ، نہ ماں اور نہ آباواجدا د تھے، نہ اُس کے دنوں کی ابتدا ہے اور نہ زندگی کا اختتام، اِس کے بجائے وہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ہے کیونکہ وہ ہمیشہ کاہن رہتا ہے۔‬‬ 4 ۴۔ اب دیکھو کہ یہ آدمی کتنا بڑا تھا، ہمارے باپ ابرہام نے مالِ غنیمت میں سے بہترین چیزوں کا دسواں حصہ اُسے دیا ۔ 5 ۵۔ اور در حقیقت لاوی کے فرزند جنہیں کہانت کا عہدہ ملتا ہے، اُن کے لئے اس شریعت سے حکم تھا کہ وہ لوگوں سے یعنی اپنے ساتھی ہم اسرائیلیوں سے، دسواں حصہ(دہ یکی) جمع کریں، وہ ابھی ابرہام کے وارث ہیں۔ 6 ۶۔ لیکن ملکِ صدق ، جو بنی لاوی نہیں تھا، اُسی نے ابرہام سے جس کے ساتھ وعدے کیے گئے تھے اُس سے دسواں حصہ لیا اور اُسے برکت دی۔‬‬ 7 ۷۔ اِس بات کا انکار نہیں ہو سکتاکہ چھوٹا بڑے سے برکت حاصل کر تا ہے۔ 8 ۸۔ اِس معاملے میں جن لوگوں نے دسواں حصہ وصول کیا وہ ایک دن مر جائیں گے لیکن دوسرے معاملے میں جس نے ابرہام سے دسواں حصہ لیا، اُس کی صفت بیان کی گئی کہ وہ زندہ ہے۔ 9 ۹۔ کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لاوی ،جو دسواں حصہ وصول کرتے تھے اُنہوں نے ابرہام کے ذریعے دسواں حصہ ادا کیا، 10 ۱۰۔ کیونکہ لاوی اپنے باپ ابرہام کے تخم میں تھا جب ابرہام ملکِ صدق سے ملا۔‬‬ 11 ۱۱۔ اب اگر لاوی کی کہانت کے ذریعے کاملیت ممکن ہوتی(کیونکہ اُس کے ماتحت لوگوں نے شریعت حاصل کی) تو ایک اور کاہن کو کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی جو ملکِ صدق کے سلسلہ پر ہو اور جس کو ہارون کے سلسلہ کے نام سے نہ پکارا جائے؟ 12 ۱۲۔ کیونکہ جب کہانت تبدیل ہوتی ہے تو شریعت کا تبدیل ہونابھی لازم ہے۔‬‬ 13 ۱۳۔ کیونکہ وہ جس کے بارے میں یہ سب لکھا گیا کسی اور قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، جس میں آج تک کسی نے قربان گاہ پر خدمت نہیں کی۔ 14 ۱۴۔اب یہ بات ثابت ہے کہ ہمارا خداوند یہوداہ کی نسل سے آیا ، ایسا قبیلہ جس کا ذکرموسیٰ نے کبھی کاہنوں کے بارے میں نہیں کیا۔ ‬‬ 15 ۱۵۔ اور جوہم کہتے ہیں وہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے،اگر ایک اور کاہن ملکِ صدق کی صورت پر اُبھرے۔ 16 ۱۶۔ یہ نیا کاہن وہ نہیں جوانسانی نسل کے قانون کی بنا پر کاہن بنا بلکہ لازوال زندگی کی طاقت کی بنیاد پر۔ 17 ۱۷۔ کیونکہ کلام اِس بات میں گواہی دیتا ہے:’’ تو ملکِ صدق کے سلسلہ کا دائمی کاہن ہے۔‘‘‬‬ 18 ۱۸۔ لہذا سابقہ حکم ایک طرف کر دیا ہے کیونکہ وہ کمزور اور بے کار ہے۔ 19 ۱۹۔ کیونکہ شریعت نے کسی چیز کو بھی کامل نہیں بنایاتاہم مستقبل کے لئے ایک بہتر اعتماد ہے جس کے باعث ہم خدا کے نزدیک کھینچے چلےجاتے ہیں۔‬‬ 20 ۲۰۔ اور یہ بہتر اعتماد بغیر حلف اٹھائے نہیں ہوا کیونکہ اِن دوسرے کاہنوں نے کوئی حلف نہیں اٹھایا۔ 21 ۲۱۔ لیکن خدا نے ایک حلف اٹھایا جب اس نے یسوع کے بارے میں کہا،’’ خداوند قسم کھاتا ہے اور اپنا ارادہ تبدیل نہیں کرے گا:تُو دائمی کاہن ہے۔‘‘‬‬ 22 ۲۲۔اِس کے ذریعہ بھی یسوع ایک بہتر عہد کی ضمانت بن گیا۔ 23 ۲۳۔ بے شک ، موت کاہنوں کو دائمی خدمت سے روکتی ہے،اِسی لئے بہت سے کاہن ہیں ایک کاہن کےبعد دوسرا (آتا ہے۔) 24 ۲۴۔ لیکن چونکہ مسیح دائمی زندہ رہتا ہے ،اُس کی کہانت لاتبدیل ہے۔‬‬ 25 ۲۵۔ لہذا،وہ اُن کو جو اُس کے وسیلے سے خدا کے نزدیک آتے ہیں مکمل طور پر نجات دینے کے قابل ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کرنے کے لئے ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ 26 ۲۶۔ پس یہی کاہنِ اعظم (سردار کاہن) ہمارے لئے مناسب ہے۔ وہ بے گناہ، بے عیب ، پاک اور گنہگاروں سے الگ ہے اور آسمانوں سے اونچا بن گیا ہے۔‬‬ 27 ۲۷۔ اُسے دوسرے سردار کاہنوں کی طرح اپنے روبرو قربانیاں چڑھانے کی حاجت نہیں یعنی پہلے اپنے گناہوں کے لئے اور پھر لوگوں کے گناہوں کے لئے۔اُس نے جب اپنے آپ کو خدا کو نذر چڑھایا تو اُس نے یہ ایک دفعہ سب کے لئے کیا۔ 28 ۲۸۔ کیونکہ شریعت کمزورآدمیوں کو بطور سردار کاہن منتخب کرتی ہے لیکن اُس کلام کا حلف جو شریعت کے بعد آیا اُسے ایک بیٹا منتخب کیا جس کو دائماَ کامل کیا گیا۔‬‬