1
۱۔ جب یسوع ایک جگہ دُعا کر رہا تھا تو یوں ہوا کہ اُس کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ ’’اے خداوند ہمیں دعا کرنا سیکھا جیسے یوحنّا نے اپنےشاگردوں کو سیکھایا ہے ۔
2
۲۔ یسوع نے اُن سے کہا کہ جب تم دعا کرو تو یوں کہو، ’اے ہمارے باپ ،تیر انام پاک مانا جائے‘ تیری بادشاہی آئے۔
3
۳۔ ہمیں ہماری روز کی روٹی دے ۔
4
۴۔ ہمارے گناہ معاف فرما ،جیسے ہم بھی اپنے قرضداروں کو معاف کرتے ہیں،ہمیں آزمائش میں نہ پڑنے دے۔
5
۵۔ یسوع نے ان سے کہا کہ ’’ تم میں ایسا کون ہے جس کا دوست آدھی رات کو اس سے روٹی مانگنے آئے۔ اوراُس سے کہے اے دوست مجھے تین روٹیاں دے
6
۶۔ کیونکہ میرا ایک دوست آیا ہے اور میرے پاس اس کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں۔
7
۷۔ اور جو اندر ہے جواب میں کہے، ’مجھے تکلیف نہ دے ،دروازہ بند ہو چکا ہے اور میرے بچے میرے ساتھ لیٹے ہیں ،میں تجھے روٹی دینے کے لیے اُٹھ نہیں سکتا۔
8
۸، میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ تجھے روٹی دینےکے لیے نہ بھی اُٹھے کیونکہ تُو اُس کا دوست ہے مگر تیرے بہت زیادہ اصرار پر اُٹھے گا تجھے اُتنی روٹیاں دیگا جتنی تجھے چاہیں۔
9
۹۔ میں تم سے یہ بھی کہتا ہوں کہ مانگو تو تم کو دیا جائے گا ڈھونڈو گے تو پاؤ گے، دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔
10
۱۰ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے ،جو ڈھونڈتا ہے وہ پا لیتا ہے اور جو کوئی کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے کھولا جائے گا۔
11
۱۱۔ تم میں سے ایسا کون سا باپ ہے کہ اگر اس کا بیٹا روٹی مانگے تو اسے پتھر دے اور اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے۔
12
۱۲۔ اگر انڈا مانگے تو اسے بچھو دے ۔
13
۱۳پس تم بُرے ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو اچھا دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنا روح القدس کیوں نہ دے گا۔
14
۱۴۔ پھر یسوع ایک بدروح نکال رہا تھا اور وہ گونگی تھی۔پھر یوں ہوا کہ جب بدروح اس میں سے نکل گئی تو وہ گونگا بولنے لگا اور لوگوں کی بھیڑ حیران ہوئی۔
15
۱۵۔ مگر اُن میں سے بعض نے کہا کہ ’’یہ تو بدروحوں کے سردار بعلزبول کی مدد سے ان کو نکالتا ہے‘‘۔
16
۱۶۔باقیوں نے اس کو آزمانے کے لیے کوئی آسمانی نشان دِکھانے کو کہا۔
17
۱۷۔ مگر یسوع ان کے خیالات سے واقف تھا اور ان سے کہا کہ ’’’جو سلطنت اپنے ہی مخالف ہو تباہ ہو جاتی ہے اور جس گھر میں مخالفت ہو وہ برباد ہو جاتا ہے۔
18
۱۸۔ اگر شیطان اپنے ہی خلاف ہو جائےتو اس کی بادشاہی کیسے قائم رہے گی ۔اور تم کہتے ہو کہ میں بدروحوں کو بعلزبول کی مدد سے باہر نکالتا ہوں۔
19
۱۹۔ اس لیے اس کا انصاف تم ہی کرو گے کہ اگر میں بدروحوں کو بعلزبول کی مدد سے نکالتا ہوں تو تمہارے پیروکار (کچھ تراجم میں لفظ بیٹا بھی استعمال ہو ہے۔) کس کی مدد سے نکالتے ہیں۔
20
۲۰۔ لیکن اگر میں بدروحوں کو خدا کی مدد سے نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آگئی ہے۔
21
۲۱۔ اگر ایک طاقتور آدمی مسلح ہو کر اپنےگھر کی حفاظت کرتا ہے تو اس کا سامان محفوظ رہتا ہے۔
22
۲۲۔ لیکن جب اس سے زور آور آدمی اُس پر حملہ کرتا ہےتو اس کے سب ہتھیار جن پر بھروسہ کرتا ہے انہیں چھین لیتا ہے اور اس کا مال و دولت لوٹ کر اسے تقسیم کر دیتا ۔
23
۲۳۔ وہ جو میرے ساتھ نہیں ہے میرے خلاف ہے اور وہ جو میرے ساتھ اکٹھا نہیں کرتا وہ بکھیرتا ہے ۔
24
۲۴۔ جب ایک ناپاک روح آدمی سے نکل جاتی ہے تو وہ رہنے کے لیے ویران (غیر آباد ) جگہوں کو ڈھونڈتی ہے اور جب نہیں پاتی تو وہ کہتی ہے کہ میں اپنے اسی گھر میں لوٹ جاؤں گی جہاں سے میں آئی تھی۔
25
۲۵۔ جب وہ گھر لوٹتی ہے تو اس گھر کو آراستہ پاتی ہے ۔
26
۲۶۔ پھر اپنے ساتھ زیادہ خطرناک سات اور بدروحوں کو لے آتی ہے ،وہ سب وہاں رہتی ہیں او راس شخص کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو جاتی ہے۔
27
۲۷۔ پھر یوں ہو اکہ جب اُس نے یہ باتیں کیں تو ایک عورت نے بھیڑ میں سے اپنی آواز بلند کی اور اس سے کہا مبارک ہے وہ رحم جس میں تو رہا او روہ چھاتیاں جو تو نے چوسیں۔
28
۲۸۔ مگر اُس نے کہا کہ ’’مبارک ہیں وہ جو خدا کا کلام سنتے اور اسے دل میں رکھتے ہیں۔
29
۲۹۔ اور جب بھیڑ بڑھتی جارہی تھی تو یسوع نے کہنا شروع کیا کہ یہ نسل بدکردار نسل ہے ۔یہ نشان ڈھونڈتی ہے مگر اسے یوناہ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان نہ دیاجائے گا۔
30
۳۰۔ جیسے یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لیے نشان بنا ویسے ہی ابنِ آدم بھی اس نسل کے لیے نشان ہو گا ۔
31
۳۱۔ عدالت کے دن جنوب (سبا ) کی ملکہ اُٹھ کر اس نسل کے لوگوں کو مجرم ٹھہرائی گی ،کیونکہ وہ دنیا کے کونے سے سلیمان کی حکمت سننے کے لیےآئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے۔
32
۳۲۔عدالت کے دن نینوہ کے لوگ اس نسل کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں ملامت کریں گے کیونکہ وہ یوناہ کی منادی سن کر پچھتائے، اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے ۔
33
۳۳۔ چراغ جلانے کے بعد کوئی بھی اسے کوٹھڑی یا ٹوکرے کے نیچے نہیں رکھتا بلکہ چراغ دان پر رکھتا ہےتاکہ جو کوئی بھی داخل ہو اسے روشنی ملے۔
34
۳۴۔ تیری آ نکھیں تیرے جسم کا چراغ ہیں جب تیری آنکھ درست ہے تو تیرے پورے بدن میں روشنی ہے مگر جب تیری آنکھ بری ہے تو پھر پھر تیرے سارے بدن میں تاریکی ہے ۔
35
۳۵۔ لہٰذا ہوشیار رہو کہ جو نور تم میں ہے وہ تاریکی نہیں۔
36
۳۶۔ پھر اگر تمہارا سار ابدن روشن ہے اس میں کوئی تاریکی نہیں توپھر تمہارا سار بدن اس چراغ کی مانند ہو گا جو اپنی روشنی تجھ پر چمکائے ۔
37
۳۷۔ جب وہ کہہ چکا تو ایک فریسی نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں میرے ساتھ کھانا کھا، تو یسوع اندر گیا اور بیٹھ گیا ۔
38
۳۸۔ اور وہ فریسی بہت حیران ہوا کہ اس نے کھانے سے پہلے ہاتھ نہ دھوئے ۔
39
۳۹۔ مگر خداوند نے اس سے کہا کہ ’’تم فریسی اپنے کٹوروں اور پیالوں کو باہر سے صاف کرتے ہو مگر اندر سے تم لالچ اور بدی سے بھرے ہو ۔
40
۴۰۔ اے نادانو! جس نے ظاہر کو بنایا ہے کیا اس نے باطن کو نہیں بنایا؟۔
41
۴۱۔ اپنے باطن کی چیزیں خیرا ت کر دو پھر سب چیزیں تمہارے لیے پاک ہوجائیں گی۔
42
۴۲۔مگر فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینے اور سُداب اور ہر ایک ترکاری پر دہ یکی تو دیتے ہو لیکن انصاف اور خدا کی محبت کو نظرانداز کر تےہو ۔لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔
43
۴۳۔ فریسیو تم پر افسوس کیونکہ تم عبادت خانوں میں اعلیٰ نشتیں اور تم بازاروں میں عزت سے سلام کروانا چاہتے ہو ۔
44
۴۴ تم پر افسوس کیونکہ تم بغیر کتبے کے ایسی قبریں ہو جن پر لوگ جانے بغیر چلتے ہیں ۔
45
۴۵۔ اور یہودی شرع کے ایک عالموں کے ایک استاد نے اس سے جواب میں کہا ’’اے ستاد ایسی باتیں کر کے تو ہماری بے عزتی کرتا ہے‘‘۔ ۔
46
۴۶۔ یسوع نے کہا ’’اے شرع کےعالموں ! تم پر افسوس کیونکہ تم جس بوجھ کواُ ٹھانا مشکل سمجھتے ہو اسے دوسروں پر لادتے ہو اور خود اپنی انگلی سے اس بوجھ کو نہیں چھوتے ‘‘۔
47
۴۷۔ تم پر افسوس کیونکہ تم نبیوں کی یاد میں ان کے مقبرے بنواتے ہو او رجن کو تمہارے آباؤ اجداد نے ہی مارا تھا ۔
48
۴۸۔ کیونکہ تم اپنے آباؤاجداد کے ان کاموں کے گواہ ہو اور انہیں قبول کرتے ہو۔ کیونکہ انہوں نے ان بنیوں کو مار دیا ،جن کے مقبرے تم بنواتے ہو ۔
49
۴۹۔ کیونکہ اِس وجہہ سے بھی خدا کی حکمت نے کہا ، "میں اِن کے پاس نبیوں اور رسولوں کو بھیجونگا ، او ریہ اُن کو ستائیں گے اور اُن میں سے کچھ کو مار ڈالیں گے۔
50
۵۰۔ یہ نسل پھر دنیا کے شروع ہونے سے لے کر تما م نبیوں کے بہائے ہوئے خون کی ذمہ دار ہو گی ۔
51
۵۱۔ ہابل کےخون سے لے کر زکریاہ کےخون تک جسے قربان گاہ او رمقدس کے درمیان ہلاک کیا گیا۔ ہاں، میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ نسل ہی ذمہ دار ٹھہرائی جائے گی۔
52
۵۲۔ اے یہودی شرع کے استادو تم پر افسوس کیونکہ تم نے معرفت کی کنجی چھین لی ،خود بھی داخل نہیں ہو سکتے اور جو داخل ہونا چاہتے تھے ان کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈالی ۔
53
۵۳۔ جب یسوع وہاں سے چلا گیا ، فقیہہ اور فیریسیوں نے اس کی مخالفت کی اور ان باتوں پر بحث کی۔
54
۵۴۔ اور وہ اسے اسی کی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کرنے لگے ۔