1
۱۔ پِھر وہ اُنھیں ایک تَمثِیل میں بتا رہا تھاکہ وہ ہر وَقْت دُعا کرتے رہیں اور ہِمَّت نہ ہاریں۔
2
۲۔ یہ کہہ کر کہ کِسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ وہ نہ تو خُدا سے ڈرتا تھا اور نہ ہی اِنسان کی عِزَّت کرتا تھا۔
3
۳۔ اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آکر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا اِنصاف کر کے مُجھے مُدَّعی سے بَچا۔
4
۴۔ اُس نے کُچھ عَرصہ تک تو نہ چاہا لیکِن آخِر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو مَیں نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمِیوں کی کُچھ پَروا کرتا ہُوں۔
5
۵۔ توبھی اِس لیے کہ یہ بیوہ مُجھے سَتاتی ہَے مَیں اِس کا اِنصاف کرُوں گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بار بار آکرآخِر کو میرا ناک میں دَم کرے۔
6
۶۔ تب خُداوَند نے کہاکہ سُنو یہ بے اِنصاف قاضی کیا کہتا ہَے؟
7
۷۔ چُنان٘چِہ کیا خُدا اپنے برگُزیدوں کا اِنصاف نہ کرے گا جو رات دِن اُس سے فریادکرتے ہَیں؟ اور کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا؟
8
۸۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ وہ جلد اُن کا اِنصاف کرے گا۔ تو بھی جب اِبنِ آدمؔ آئے گا تو کیا زمِین پر اِیمان پائے گا؟
9
۹۔ پِھر اُس نے بعض لوگوں سے جِنھیں اپنے راسْتباز ہونے کا یَقِین تھا جب کہ باقی آدمِیوں کو ناچِیز جانتے تھے یہ تَمثِیل کہی۔
10
۱۰۔ کہ دو شخْص ہَیکل میں دُعا کرنے گَئے۔ ایک فرِیسی اور دُوسرا محصُول لینے والا۔
11
۱۱۔ فرِیسی کھڑا ہوکر اپنے جی میں یُوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خُدا! مَیں تیرا شُکْر اَدا کرتا ہُوں کہ باقی آدمِیوں کی طرح نہیں ہوں جو لُٹیرے، ناراسْت اور زانی ہَیں حَتّٰی کہ اِس محصُول لینے والے کی مانِن٘د بھی نہیں ہُوں۔
12
۱۲۔ مَیں ہفتے میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری کَمائی پر دَہ یَکی دیتا ہُوں۔
13
۱۳۔ لیکِن محصُول لینے والے نے دُور کھڑے ہوکر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہا کہ اَے خُدا! مُجھ گُنہگار پر رَحْم کر۔
14
۱۴۔ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ شخْص دُوسرے کی نِسْبَت راسْتباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کِیُوں کہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ حَقِیر کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو خاکسار بنائے گا وہ سرفراز کِیا جائے گا۔
15
۱۵۔ پِھر لوگ اپنے چھوٹے بچّوں کو بھی اُس کے پاس لانے لگے تاکہ وہ اُن کو چُھوئے اور شاگِردوں نے دیکھ کر اُنھیں جِھڑکا۔
16
۱۶۔ مگر یِسُوعؔ نے بچّوں کو پاس بُلاتے ہُوئے کہا کہ بچّوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنھیں مَنع نہ کرو کِیُوں کہ خُدا کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہَے۔
17
۱۷۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی خُدا کی بادشاہی کو بچّے کی طرح قُبُول نہ کرے وہ اُس میں ہرگِز داخِل نہ ہوگا۔
18
۱۸۔ پِھر کِسی سردار نے اُس سے یہ سوال کِیا کہ اَے نیک اُستاد! مَیں کیا کرُوں کی ہمیشہ کی زِندگی کا وارِث بنُوں؟
19
۱۹۔یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ تُو مُجھے کِیُوں نیک کہتا ہَے؟ کوئی نیک نہیں سِوائے خُدا کے۔
20
۲۰۔ تُو حُکموں کو تو جانتا ہَے۔ زِنا نہ کر۔ خُون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھُوٹی گَواہی نہ دے۔ اپنے باپ اور ماں کی عِزّت کر۔
21
۲۱۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے نوجوانی سے ہی اِن سب پر عَمَل کِیا ہَے۔
22
۲۲۔ یِسُوعؔ نے یہ سُن کر اُس سے کہا کہ ابھی تک تُجھ میں ایک بات کی کمی ہَے۔ اپنا سب کُچھ بیچ کر غرِیبوں کو بانٹ دے۔ تُجھے آسمان پر خزانہ مِلے گا اور آکر میرے پِیچھے ہولے۔
23
۲۳۔ یہ سُن کر وہ بہت غمگِین ہُوا کِیُوں کہ بڑا دَولَتمند تھا۔
24
۲۴۔ یِسُوعؔ نے اُسے دیکھ کر کہا کہ کِتنا مُشْکِل ہَے دَولَت مَندوں کا خُدا کی بادشاہی میں داخِل ہونا!
25
۲۵۔ کِیُوں کہ اُونٹ کا سُوئی کے ناکے میں سے گُزر جانا دَولَت مَندوں کے خُدا کی بادشاہی میں داخِل ہونے سے زِیادہ آسان ہَے۔
26
۲۶۔ سُننے والوں نے کہا کہ پِھر کَون نَجات پا سکتا ہَے؟
27
۲۷۔ اُس نے کہا کہ جو کام اِنسان کے لیے نامُمکن ہَیں وہ خُدا سے مُمکن ہَیں۔
28
۲۸۔ پَطرسؔ نے کہا کہ دیکھ! ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے پِیچھے ہو لیے ہَیں۔
29
۲۹۔اُس نے اُن سے کہا کہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ ایسا کوئی نہیں جِس نے گھر یا بِیوی یا بھائِیوں یا ماں باپ یا بچّوں کو خُدا کی بادشاہی کی خاطِر چھوڑا ہو۔
30
۳۰۔ اور اُسے اِس زمانہ میں کَئی گُنا زِیادہ اور آنے والے عالَم میں ہمیشہ کی زِندگی نہ مِلے۔
31
۳۱۔ پِھر وہ اُن بارہ کو اَلگ لے جاکر اُن سے کہنے لگا کہ دیکھو ہم یروشلِؔیم کو جاتے ہَیں اوروہ سب باتیں پُوری ہوں گی جو اَن٘بِیاء نے اِبنِ آدمؔ کے بارے میں لِکھی ہَیں۔
32
۳۲۔ کِیُوں کہ وہ دَغا بازی سے غیر قَوم والوں کے حَوالہ کِیا جائے گا اور اُس کی تضْحِیک کی جائے گی اور بے عِزَّت کِیا جائے گا اور اُس پر تُھوکا جائےگا۔
33
۳۳۔ اور اُسے کوڑے ماریں گے اور قَتْل کریں گے اور وہ تِیسرے دِن پِھر جی اُٹھے گا۔
34
۳۴۔ اور وہ اِن باتوں میں سے کُچھ بھی سمجھ نہ پائے اور یہ قَول اُن پر پوشِیدہ رہا اور نہ ہی اُس کلام کو جان سکے۔
35
۳۵۔ اور ایسا ہُوا کہ چلتے چلتے جب وہ یریؔحُو کے نزدِیک پَہُنْچا تو ایک اَندھا راہ کے کِنارے بیٹھا بِھیک مان٘گ رہا تھا۔
36
۳۶۔ اُس نے بھِیڑ کے گُزرنے کی آواز سُنی تو پُوچھنے لگا کہ یہ کیا مُعاملہ ہَے؟
37
۳۷۔ تب اُنھوں نے اُسے بتایا کہ یِسُوعؔ ناصؔری یہاں سے گُزر رہا ہَے۔
38
۳۸۔ اُس نے چِلّا کر کہا کہ اَے یِسُوعؔ اِبنِ داؔؤد مُجھ پر رَحْم کر۔
39
۳۹۔چُنان٘چِہ جو آگے آگے چلتے تھے اُسے ڈانٹنے لگے کہ چُپ رہے مگر وہ اَور بھی چَلّایا کہ اَے اِبنِ داؔؤد مُجھ پر رَحْم کر۔
40
۴۰۔ یِسُوعؔ نے رُک کر حُکْم دِیا کہ اُسے میرے پاس لاؤ۔ جب وہ نزدِیک آیا تواُس نے اُس سے پُوچھاکہ
41
۴۱۔ تُو کیا چاہتا ہَے کہ مَیں تیرے لیے کرُوں؟ اُس نے کہا کہ اَے خُداوَند یہ کہ مَیں بِینا ہو جاؤُں۔
42
۴۲۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ بِینا ہوجا۔ تیرے اِیمان نے تُجھے اَچھّا کِیا۔
43
۴۳۔ وہ اُسی دَم بِینا ہوگیا اور خُدا کی تمجِید کرتا ہُوا اُس کے پِیچھے ہو لِیا اور سب لوگوں نے دیکھ کر خُدا کی حَمْد کی۔