باب ۵

1 ۱۔ اِن باتوں کے بعد یہُودِیوں کی عِید ہُوئی اور یِسُوعؔ یروشلِیمؔ کو گیا۔ 2 ۲۔ییرُوشلِؔیم میں بِھیڑ دروازے کے پاس ایک حَوض ہَے جو عِبرانی میں بیت حسدؔا کہلاتا ہَے اور اُس کے پان٘چ برآمدے ہَیں۔ 3 ۳ ۔اُن میں بہت سے بِیمار، اَندھے، لنگڑے اور پژ مُردہ لوگ پڑے تھے [جو پانی کے ہِلنے کے مُنتظِر تھے]۔ 4 ۴۔ (کِیُونکہ خُداوَندکا فرِشتہ ایک مخصُوص وقْت پر حَوض پر اُتر کر پانی ہِلاتا تھا اور جو کوئی پانی کے ہِلتے ہی حَوض میں پہلے اُتر جاتا، خواہ اُسے کیسی بھی بِیماری ہوتی وہ اُس سے شِفا پاتا)۔ ‬‬ 5 ۵۔ اور وہاں ایک آدمی تھا جو اَڑْتِیْس بَرس سے بِیماری میں مُبْتَلا تھا۔ 6 ۶ ۔ یِسُوعؔ نے اُسے پڑے دیکھ کر اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مُدّت سے اِس حالت میں ہَے تواُس سے کہا، ’’کیا تُو تندرُست ہونا چاہتا ہَے؟‘‘ 7 ۷۔اُس بِیمار نے اُسے جَواب دِیا کہ اَے خُداوَند! میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب یہ پانی ہِلایا جائے تو مُجھے حَوض میں اُتار دے کِیُونکہ میرے پُہنچتے پُہنچتے دُوسرا مُجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہَے۔ 8 ۸۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا، ’’اُٹھ! اپنا بِسْتر اُٹھا اور چل پِھر۔‘‘ 9 ۹۔اور وہ آدمی اُسی وقْت تَنْدُرُسْت ہوگیا اور اپنا بِسْتر اُٹھا کر چلنے پِھرنے لگا۔ اور وہ دِن سبت کا تھا۔ ‬‬ 10 ۱۰۔چُنان٘چِہ یہُودی اُس شخْص سے جِس نے شِفا پائی تھی کہنے لگے کہ آج سبت کا دِن ہَے اور تُجھے رَوا نہیں کہ اپنا بِسْتَر اُٹھائے۔ 11 ۱۱۔اُس نے اُنھیں جواباً کہ جِس نے مُجھے شِفا بخشی اُسی نے مُجھے فرمایا کہ اپنا بِسْتر اُٹھا اور چل پِھر۔ 12 ۱۲۔سو اُنھوں نے اُس سے پُوچھا کہ وہ کون شخْص ہَے جِس نے تُجھ سے کہا کہ اپنا بِستر اُٹھا اور چل پِھر؟ 13 ۱۳۔لیکِن جو شخْص شِفا پاگیا تھا وہ نہ جانتا تھا کہ کون ہَے کِیُونکہ بِھیڑ کے سبب سے یِسُوعؔ وہاں سے ٹل گیا تھا۔ 14 ۱۴۔ اِن باتوں کے بعد یِسُوعؔ نے اُسے ہَیکل میں پایا اور اُس سے کہا، ’’دیکھ! تُو نے شِفا تو پائی ہَے، پِھر گُناہ نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ تیرا حال پہلے سے بھی بَد تر ہو جائے۔‘‘ 15 ۱۵۔وہ آدمی گیا اور یہُودِیوں کو خَبَردی کہ جِس نے مُجھے شِفا بخشی وہ یِسُوعؔ ہَے۔ 16 ۱۶۔اِس لیے یہُودی یِسُوعؔ کو ستانے لگے کِیُونکہ وہ سبت کے دِن ایسے کام کرتا تھا۔ 17 ۱۷۔ مگر یِسُوعؔ نے اُن سے کہا کہ میرا باپ اَب تک کام کرتا ہَے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں۔ 18 ۱۸۔ اِس وجہ سے یہُودی اُسے اَوربھی زِیادہ قتْل کرنے کی کوشِش کرنے لگے کِیُونکہ وہ نہ صِرْف سبت کا حُکْم توڑتا تھا بلکہ خُدا کو اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا۔ 19 ۱۹۔چُنان٘چِہ یِسُوعؔ نے اُن سے جواباً کہا کہ مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ بیٹا وہی کرتا ہَے جو باپ کو کرتے ہُوئے دیکھتا ہَے اِس کے سِوا بیٹا کُچھ اَور نہیں کرتاکِیُونکہ جو کُچھ وہ کرتا ہَے وہی بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہَے۔ 20 ۲۰۔اِس لیے کہ باپ بیٹے سے مُحَبَّت رکھتا ہَے اور جِتنے کام خُود کرتا ہَے اُسے دِکھاتا ہَے۔ بلکہ وہ اِن سے بھی بڑے بڑے کام اُسے دِکھائے گاکہ تُم تعجُّب کرو۔ 21 ۲۱۔کِیُونکہ جیسے باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زِندہ کرتا ہَے ویسے ہی بیٹا بھی جِنھیں چاہتا ہَے زِندہ کرتا ہَے۔ 22 ۲۲۔کِیُونکہ باپ کِسی کی عَدالَت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عَدالَت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کر دِیا ہَے۔ 23 ۲۳۔تاکہ جِس طرح سب باپ کا اِحْتِرام کرتے ہَیں، بیٹے کا بھی اِحْتِرام کریں ۔ جو بیٹے کا اِحْتِرام نہیں کرتا وہ باپ کا بھی جِس نے اُسے بھیجا ہَے اِحْتِرام نہیں کرتا ۔ ‬‬ 24 ۲۴۔مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقِین کرتا ہَے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہَے اور اُس پر سزا کا حُکْم نہیں ہوتا بلکہ وہ مَوت سے نِکَل کر زِندگی میں داخِل ہو گیا ہَے۔ ‬‬ 25 ۲۵۔مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ وہ وَقْت آتا ہَے بلکہ اَب ہی ہَے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جِیئیں گے۔ ‬‬ 26 ۲۶۔کِیُونکہ جِس طرح باپ اپنے آپ میں زِندگی رکھتا ہَے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زِندگی رکھّے۔ 27 ۲۷۔اور اُسے اِخْتِیاربھی بخشا کہ عَدالَت کرے اِس لیے کہ وہ اِبنِ آدم ہَے۔ 28 ۲۸۔اِس پر حَیران مت ہو کِیُونکہ وہ وقْت آتا ہَے کہ جِتنے قبروں میں ہَیں اُس کی آواز سُنیں گے۔ 29 ۲۹۔اور جِنھوں نے نیکی کی ہَے زِندگی کی قیامت کے واسطے نِکلیں گے لیکِن جِنھوں نے بَدی کی ہَے سزا کی قیامت کے واسطے۔ 30 ۳۰۔مَیں خُود سے کُچھ نہیں کر سکتا،جیسا سُنتا ہُوں ویسے ہی عَدالَت کرتا ہُوں اور میری عَدالَت راسْت ہَے کِیُونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہُوں۔ 31 ۳۱۔اگر مَیں اپنی گَواہی خُود دُوں تو میری گَواہی سچّی نہیں۔ 32 ۳۲۔ ایک اَور ہَے جو میری گَواہی دیتا ہَے اور مَیں جانتا ہُوں کہ میری گَواہی جو وہ دیتا ہَے سچّی ہَے۔ 33 ۳۳۔تُم نے یُوحنّاؔ کے پاس پَیغام بھیجا اور اُس نے سچّائی کی گَواہی دی ہَے۔ 34 ۳۴۔گو مَیں اپنی نِسبت اِنسان کی گَواہی منظُور نہیں کرتا تَوبھی مَیں یہ باتیں اِس لیے کہتا ہُوں کہ تُم نجات پاؤ۔ 35 ۳۵۔ وہ جلتا اور چمکتا ہُؤا چراغ تھا جِس کی روشنی میں تُم نے کُچھ عرصہ تک خُوش رہنا پسنْد کِیا۔ ‬‬ 36 ۳۶۔لیکِن جو شہادت میرے پاس ہَے وہ یُوحنّاؔ کی شہادت سے عظِیم تر ہَے۔ کِیُونکہ جو کام باپ نے مُجھے مُکمل کرنے کو دیئے یعنی یہی کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ میرے شاہد ہَیں کہ باپ نے مُجھے بھیجا ہَے۔ 37 ۳۷۔اور باپ جِس نے مُجھے بھیجا ہَے اُسی نے میری شہادت دی ہَے۔ تُم نے نہ کبھی اُس کی آواز سُنی اور نہ ہی اُس کی صُورت دیکھی۔ 38 ۳۸۔اور تُم اُس کا کلام اپنے باطِن میں قائِم نہیں رکھتے اِس لیے کہ تُم اُس کا جِسے اُس نے بھیجا ہَے یقِین نہیں کرتے۔ ‬‬ 39 ۳۹۔ تُم صحائف میں بڑی مِحْنَت سے تلاش کرتے ہو کِیُونکہ گُمان کرتے ہو کہ تُمھارے لیے حیاتِ ابدی اُنہی میں ہَے۔اور یہ وہی ہَیں جو میری شہادت دیتے ہَیں۔ 40 ۴۰۔تو بھی تُم زِندگی پانے کے لیے میرے پاس آنا پسن٘د نہیں کرتے۔ 41 ۴۱۔ مَیں آدمِیوں سے عِزّت نہیں چاہتا۔ 42 ۴۲۔ مگر مَیں تُمھیں جانتا ہُوں کہ تُم میں خُدا کی مُحَبَّت نہیں۔ 43 ۴۳۔مَیں تو اپنے باپ کے نام سے آیا ہُوں پِھر بھی تُم مُجھے قبُول نہیں کرتے۔ جب کہ کوئی دُوسرا اپنے ہی نام سے آئے تو تُم اُسے جَھٹ قبُول کر لو گے۔ 44 ۴۴۔تُم جو ایک دُوسرے سے عِزّت چاہتے ہو اور وہ عِزّت جو خُدایِ واحِد کی طرف سے مِلتی ہَے نہیں چاہتے تو پِھر کیونکر اِیمان لا سکتے ہو؟ 45 ۴۵۔ یہ نہ سمجھو کہ مَیں باپ کے سامنے تُمھیں مُجرِم ٹھہراؤں گا۔ تُمھیں مُجرِم ٹھہرانے والا تو ہَے یعنی مُوسیٰؔ جِس پر تُم نے اُمّید لگا رکھّی ہَے۔ 46 ۴۶۔کِیُونکہ اگر تُم مُوسیٰؔ کا یقِین کرتے تو میرا بھی یقِین کرتے۔ اِس لیے کہ اُس نے تو میرے ہی حَق میں لِکھا ہَے۔ 47 ۴۷۔لیکِن جب تُم اُس کے صحائف پر ہی یقِین نہیں کرتے تو میری باتوں پر کِیُوں کر کرو گے؟