1
۔ امنون اَور تمر اَور ابی سلوم بِن داؤد کی ایک خُوبصُورت بہن تھی جس کا نام تمر تھا۔ اَور اِس کے بعد ایسا ہُوا۔ کہ داؤد کا بیٹا امنون اُس پرعاشق ہُوا۔
2
۔ اَور امنون اُس پر ایسا فریفتہ ہُوا۔ کہ اپنی بہن تمر کے لئے بیمار پڑا۔ چُونکہ وہ کُنواری تھی۔ تو اُس کے لئے اُس کے ساتھ کُچھ کرنا مُشکل تھا۔
3
۔ اَور امنون کا ایک دوست یُوندب نامی تھا۔ جو داؤد کے بھائی سمّعہ کا بیٹا تھا۔ اَور یُوندب نہایت ہُوشیار آدمی تھا۔
4
۔ اُس نے اُس سے کہا۔ اَے بادشاہ کے بیٹے! کیا سبب ہَے؟ کہ مَیں تُجھے روز بروز دُبلا ہوتا جاتا دیکھتا ہُوں۔ کیا تُو مُجھے نہیں بتائے گا؟ امنون نے اُس سے کہا۔ کہ مَیں اپنے بھائی ابی سلوم کی بہن پر فریفتہ ہُوں۔
5
۔ یُوندب نے کہا۔ تُو اپنے پلنگ پرلیٹ جا اَور بیمار بن۔ اَور جب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو تُو اُس سے کہہ دینا۔ کہ میری بہن تمر کو میرے پاس آنے دو کہ مُجھے روٹی کھِلائے۔ اَور میرے سامنے کھانا پکائے تاکہ مَیں دیکھُوں اَور اُس کے ہاتھ سے کھاؤں۔
6
۔ تب امنون بِسترپر لیٹا اَور بیمار بنا۔ پس بادشاہ اُسے دیکھنے آیا۔ امنون نے بادشاہ سے کہا۔ کہ میری بہن تمر کو آنے دے۔ کہ وہ میرے سامنے دو پُھلکے پکائے۔ اَور مَیں اُس کے ہاتھ سے کھاؤں۔
7
۔ چُنانچہ داؤد نے تمر کو گھر میں پیغام بھیج کر کہا۔ کہ اپنے بھائی امنون کے گھر جا۔ اَور اُس کے لئے کھانا پکا۔
8
۔ پس تمر اپنے بھائی امنون کے گھر گئی اَور وہ بِستر پر پڑا تھا۔ تو اُس نے آٹا لِیا اَورگُوندھا۔ اَور اُس کے سامنے پُھلکا بنایا اَور پُھلکے کو پکایا۔
9
۔ اَور توا لیا اَور اُس کے سامنے دھرا۔ تو اُس نے کھانے سے اِنکار کِیا۔ اَور امنون نے کہا کہ میرے پاس سے سب باہر چلے جاؤ۔ تب ہر ایک اُس کے پاس سے نِکل گیا۔
10
۔ تب امنون نے تمر سے کہا۔ کہ کھانا کمرے کے اندر لے آ۔ کہ مَیں تیرے ہاتھ سے کھاؤں۔ تو تمر نے جو پُھلکا بنایا تھا لِیا۔ اَور اپنے بھائی امنون کے پاس کمرے کے اندر لائی۔
11
۔ اَور اُس کے سامنے آئی تاکہ وہ کھائے تو اُس نے اُسے پکڑا اَور کہا۔ اَے میری بہن۔ میرے ساتھ وصَل کر۔
12
۔ تو اُس نے کہا۔ نہیں میرے بھائی۔ مُجھے ذلِیل نہ کر۔ کیونکہ ایسی بات اِسرائیل میں نہیں ہونی چاہئے۔ اِس لئے تُو یہ بے حَیائی مت کر۔
13
۔ اَور مَیں اپنی شرمِندگی میں کہاں جاوُں گی؟ اَور تُو اِسرائیل میں بیوقُوفوں میں سے ایک کی مانند ہوگا۔ اَب تُو بادشاہ سے بات کر۔ تو وہ مُجھے تُجھ سے نہ روکے گا۔
14
۔ تو اُس نے اُس کی بات سُننے سے انِکار کِیا۔ اَور زبردستی کرکے اُس سے جبراً صُحبت کی۔
15
۔ تب امنون اُس سے سخت مُتنفّرِ ہوگیا کہ یہ نفرت جس سے اُس نے اُس سے نفرت کی۔ اُس عشق سے زیادہ تھی جس سے وہ اُس پر عاشق ہُوا تھا۔ اَور امنون نے اُس سے کہا۔ اُٹھ اَور چلی جا۔
16
۔ تو اُس نے اُس سے کہا۔ اَے میرے بھائی مُجھے باہر نہ نِکال کیونکہ یہ بَدی اُس سے بھی بڑھ کر ہوگی جو تُو نے مُجھ سے پہلے کی۔ تو اُس نے اُس کی بات سُننے سے اِنکار کِیا۔
17
۔ اَور اُس نے جوان کو جو اُس کا خدمت گار تھا بُلایا اَور کہا۔ کہ اِسے میرے پاس سے باہر نِکال دے اَور اُس کے پیچھے دروازہ بند کر۔
18
۔ اَور وہ نقش دار قمیض پہنے ہُوئے تھی۔ کیونکہ بادشاہ کی کُنواری بیٹیاں اِسی طرح کی قمیضیں پہنتی تھیں تو اُس کے خدمت گُزار نے اُسے باہر نِکال دِیا۔ اَور اُس کے پیچھے دروازہ بند کِیا۔
19
۔ تب تمر نے اپنے سر پر راکھ ڈالی۔ اَور نقش دار قمیض جو وہ پہنے تھی پھاڑی۔ اَور اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھّے۔ اَور چِلّاتی ہُوئی چلی۔
20
۔ تو اُس کے بھائی ابی سلوم نے اُس سے کہا۔ کیا تیرا بھائی امنون تیرے ساتھ رہا؟ اَب اَے میری بہن چُپکی رہ۔ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہَے۔ اَور اِس بات کا غم نہ کر۔ سو تمر اپنے بھائی ابی سلوم کے گھر میں بڑی اُداس رہی۔
21
۔ اَور داؤد بادشاہ نے یہ سب باتیں سُنیں تو نہایت غُصّے ہُوا۔ مگر اُس نے امنون کے دِل کو اندو ہگین نہ کِیا۔ کیونکہ اُسے پیار کرتا تھا۔ اِس لئے کہ وہ اُس کا پہلوٹھا بیٹا تھا۔
22
۔ لیکن ابی سلوم نے امنون کو کوئی اچھّی یا بُری بات نہ کہی۔ کیونکہ وہ امنون سے نفرت کرتا تھا۔ اِس لئے کہ اُس نے اُس کی بہن تمر کو بے حُرمت کِیا تھا۔
23
۔ ابی سلوم کا اِنتقام اَور دو برس کے بعد ایسا ہُوا۔ کہ بَعلَ حصور میں جو افرائیم کے قریب ہَے۔ ابی سلوم کی بھیڑوں کے بال کُترنے والے موجُود تھے۔ تو ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کی دعوت کی۔
24
۔ اَور ابی سلوم بادشاہ کے پاس آیا اَور اُس سے کہا۔ کہ تیرے خادِم کے پاس بھیڑوں کے بال کترُنے والے موجُود ہَیں۔ سو بادشاہ اَور اُس کے مُلازِم اپنے خادِم کے ساتھ چلیں۔
25
۔ تو بادشاہ نے ابی سلوم سے کہا۔ نہیں اَے میرے بیٹے! ہم سب نہیں جائیں گے تاکہ تُجھ پر بوجھ نہ ہو۔ تو اُس نے اِصرار کِیا۔ پر اُس نے جانا نہ چاہا مگر اُسے برکت دی۔
26
۔ تب ابی سلوم نے کہا۔ کہ میرے بھائی امنون کو ہمارے ساتھ جانے کی اِجازت دے۔ بادشاہ نے کہا وہ کیوں تیرے ساتھ جائے؟
27
۔ اَور ابی سلوم نے اِصرار کِیا۔ تو اُس نے اُس کے ساتھ امنون کو اَور بادشاہ کے سارے بیٹوں کو بھیجا۔ اَور ابی سلوم نے ضِیافت تیّار کی۔ جیسے بادشاہوں کی ضِیافت ہوتی ہَے۔
28
۔ اَور ابی سلوم نے اپنے خادِموں کو حُکم دِیا اَور کہا۔ دیکھو۔ جس وقت امنون کا دِل مَے سے خُوش ہو۔ اَور مَیں تُم سے کہُوں۔ کہ امنون کو مارو۔ تو تُم اُسے قتل کرو۔ مت ڈرو۔ کیا مَیں نے تُمہیں حُکم نہیں دِیا؟ پس بَہادُر بنو اَور دِلاوری کرو۔
29
۔ تب ابی سلوم کے خادِموں نے امنون سے ویسا ہی کِیا۔ جیسا ابی سلوم نے اُنہیں حُکم دِیا تھا۔ تب بادشاہ کے تمام بیٹے اُٹھے۔ اَور ہر ایک اپنی خَچّر پر سَوار ہو کر بھاگ گیا۔
30
۔ ہنُوزوُہ راہ ہی میں تھے کہ داؤد کو خبر پُہنچی اَور اُس سے کہا گیا۔ کہ ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو قتل کردِیا ہَے۔ اَور اُن میں سے ایک بھی نہیں بچا۔
31
۔ تب بادشاہ اُٹھا اَور اپنے کپڑے پھاڑے۔ اَور زمین پر پڑا۔ اَور اُس کے خادِم اُس کے سامنے اپنے کپڑے پھاڑے ہُوئے کھڑے تھے۔
32
۔ تب داؤد کے بھائی سمّعہ کے بیٹے یُوندب نے بات کرکے کہا۔ میرا آقا گُمان نہ کرے کہ بادشاہ کے سب بیٹے مار دیئے گئے ہَیں۔ پر اکیلا امنون ہی قتل کِیا گیا ہَے۔ کیونکہ یہ بات ابی سلوم کے چہرہ سے اُسی دِن سے ظاہر تھی جب اُس نے اُس کی بہن تمر کو بے حُرمت کِیا تھا۔
33
۔ سو اَب میرا مالِک بادشاہ اپنے دِل میں یہ بات ہرگز نہ رکھّے کہ بادشاہ کے سارے بیٹے مار دیئے گئے ہَیں۔ بلکہ اکیلا امنون ہی قتل کِیاگیا ہَے۔
34
۔ اور ابی سلوم بھاگا۔ اَور بُہت سے لوگ اُس راہ میں جو پہاڑ کی جانِب ہَے، آتے تھے۔ تو وہ جوان جو چوکیداری کرتا تھا آیا اَور بادشاہ کو خبردے کر کہاکہ مَیں نے حورونائم کی راہ پر پہاڑ کی جانِب سے آدمیوں کو آتے ہُوئے دیکھا ہَے۔
35
۔ تب یُوندب نے بادشاہ سے کہا۔ دیکھ بادشاہ کے بیٹے آگئے ہَیں اَور جیسا تیرے خادِم نے کہا ویسا ہی ہَے۔
36
۔ جب وہ بات کر چُکا تو بادشاہ کے بیٹے آپُہنچے۔ اَور اُنہوں نے رونے کے لئے اپنی آوازیں بُلند کیں اَور بادشاہ اَور اُس کے تمام خادِم بھی نہایت شِدّت سے روئے۔
37
۔ لیکن ابی سلوم بھاگ گیا۔ اَور جسور کے بادشاہ تَلمی بِن عمّیہود کے پاس آگیا۔ اَور داؤد اپنے بیٹے پر ہر روز ماتم کرتا تھا۔
38
۔ اَور جب ابی سلوم بھاگ کر جسور میں گیا۔ تو وہاں پر تین برس رہا۔
39
۔ اَور داؤد بادشاہ ابی سلوم کی تلاش سے باز رہا۔ کیونکہ وہ امنون کی مَوت کی بابت تسلّی پذیر ہوگیا ہُوا تھا۔