باب ۱۸

1 ۱۔ یِسُوعؔ یہ باتیں کہہ کر اپنے شاگِردوں کے ساتھ قِدرُونؔ کی وادی یَعنی موسمِ سرما کی بہتی ندی کے پار گیا جہاں ایک باغ تھا جِس میں وہ اپنے شاگِردوں سمیت داخِل ہُوا۔ 2 ۲۔اور اُس کا پکڑوانے والا یہُوداؔہ بھی اُس مقام سے واقِف تھا کِیُونکہ یِسُوع اکثر اپنے شاگِردوں کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ 3 ۳۔ چُنان٘چِہ یہُوداؔہ سِپاہِیوں کا دَسْتہ اور سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں سے پِیادے لے کر چَراغوں اور مَشعلوں اور ہَتِھیاروں کے ساتھ وہاں آیا۔ 4 ۴۔یِسُوعؔ وہ سب کُچھ جانتے ہُوئے جو اُس پر واقِع ہونے کو تھا آگے بڑھا اور اُن سے پُوچھا کہ تُم کِسے ڈُھونڈتے ہو؟ 5 ۵۔اُنھوں نے اُسے جواب دِیا کہ یِسُوعؔ ناصری کو۔ یِسُوعؔ نے اُن سے کہا کہ مَیں ہی ہُوں اور اُس کا پکڑوانے والا یہُوداؔہ بھی اُن کے ساتھ کھڑا تھا۔ 6 ۶۔اور جُونہی اُس نے اُن سے کہا کہ مَیں ہی ہُوں تو وہ پِچھلے پاؤں پِھرے اور زمِین پر جا گِرے۔ 7 ۷۔ تب اُس نے اُن سے پِھر پُوچھا کہ تُم کِسے ڈُھونڈتے ہو؟ اُنھوں نے جواباً کہا، ’’یِسُوعؔ ناصری کو۔‘‘ 8 ۸۔یِسُوعؔ نے جواب میں کہا، ’’مَیں تو تُم سے کہہ چُکا کہ مَیں ہی ہُوں سو اگر تُم مُجھے ڈُھونڈتے ہو تو اِنھیں جانے دو۔‘‘ 9 ۹۔یہ اُس نے اِس لیے کہا تاکہ وہ کلام پُورا ہو جو اُس نے کہا تھا کہ جِنھیں تُو نے مُجھے دِیا اُن میں سے مَیں نے کِسی ایک کو بھی نہ کھویا۔ 10 ۱۰۔تب شمعُونؔ پطرسؔ نے تَلْوار جو اُس کےپاس تھی کھینچی اور سردار کاہن کے غُلام پر چلائی اور اُس کا دہنا کان اُڑا دِیا۔ اُس غُلام کا نام ملخُسؔ تھا۔ 11 ۱۱۔مگر یِسُوعؔ نے پطرسؔ سے کہا کہ تَلْوار میان میں کر، کیا مَیں وہ پیالہ جو میرے باپ نے مُجھے دِیا ہَے نہ پِئیوں؟ 12 ۱۲۔تب سِپاہِیوں اور صُوبہ دار اور یَہُودِیوں کے پِیادوں نے مِل کر یِسُوعؔ کو پکڑا اور اُسے باندھ لِیا۔ 13 ۱۳۔اور پہلے اُسے حنّاؔ کے پاس لے گَئے کِیُونکہ وہ اُس برس کے کاہنِ اعظم کائِفاؔ کا سُسر تھا۔ 14 ۱۴۔یہ وُہی کائِفاؔ تھا جِس نے یہُودِیوں کو صلاح دی تھی کہ اُمَّت کے بدلے ایک آدمی کا مَرنا بہتر ہَے۔ 15 ۱۵۔اور شمعُونّ پطرسؔ یِسُوعؔ کے پِیچھے ہو لِیا اور ایک اَور شاگِرد بھی۔ یہ شاگِرد کاہنِ اعظم کا جان پہچان والا تھا اور یِسُوعؔ کے ساتھ کاہنِ اعظم کے دِیوان خانہ میں گیا۔ 16 ۱۶۔ لیکِن پطرسؔ باہِر دروازہ پر کھڑا رہا تب وہ دُوسرا شاگِرد جو کاہِنِ اعظم سے جان پہچان رکھتا تھا باہِر نِکلا اور دربان عورت سے کہہ کر پطرسؔ کو اَندر لے گیا۔ 17 ۱۷۔ تب اُس عورت نے جو دربان تھی پطرسؔ سے کہا، ’’کیا تُو بھی اِس شخْص کے شاگِردوں میں سے ایک نہیں؟‘‘ اُس نے کہا، ’’مَیں نہیں ہُوں۔‘‘ 18 ۱۸۔ غُلام اور پِیادے جاڑے کے سبب سے کوئلوں کی آگ سُلگا کر کھڑے ہُوئے تاپ رہے تھے اور پطرسؔ بھی اُن کےساتھ کھڑا تاپ رہا تھا۔ 19 ۱۹۔تب کاہنِ اعظم نے یِسُوعؔ سے اُس کے شاگِردوں اور اُس کی تعلِیم کے مُتَعَلِّق سوال کِیا۔ 20 ۲۰۔یِسُوعؔ نے اُسے جواب میں کہا کہ مَیں نے دُنیا سے اِعْلانِیَہ باتیں کی ہَیں۔ مَیں نے ہمیشہ عِبادَت خانوں اور ہَیکل میں جہاں سب یہُودی جمع ہوتے ہَیں تعلِیم دی اور پوشِیدگی میں کُچھ نہیں کہا۔ 21 ۲۱۔تُو مُجھ سے کِیوں پُوچھتا ہَے؟ سامِعِین سے پُوچھ کہ مَیں نے اُن سے کیا کہا۔ دیکھ اُنھیں معلُوم ہَے کہ مَیں نے کیا کیا کہا ہَے۔ 22 ۲۲۔جب اُس نے یہ باتیں کہِیں تو اِس پر پِیادوں میں سے ایک نے جو پاس کھڑا تھا یِسُوعؔ کو طَمانچَہ مارکر کہا تُو کاہنِ اعظم کو ایسا جَواب دیتا ہَے؟ 23 ۲۳۔یِسُوعؔ نے اُسے جواب میں کہا کہ اگر مَیں نے غَلَط کہا ہَے تو اُس غَلَطی پر گَواہی دے لیکِن اگر ٹھِیک کہا ہَے تو تُو مُجھے کِیُوں مارتا ہَے؟ 24 ۲۴۔ چُنان٘چِہ حنّاؔ نے اُسے بندھا ہُوا کاہِنِ اعظم کائِفا کے پاس بھیج دِیا۔ 25 ۲۵۔شمعُونؔ پطرسؔ کھڑا تاپ رہا تھا۔ سو اُس سے کہا گیا کہ کیا تُو اُس کے شاگِردوں میں سے نہیں؟ اُس نے اِنکار کر کے کہا کہ مَیں نہیں ہُوں۔ 26 ۲۶۔پِھر کاہِنِ اعظم کے غُلاموں میں سے ایک نے جو اُس شخْص کا رِشتہ دار تھا جِس کا کان پطرسؔ نے اُڑا دِیا تھا کہا کہ کیا مَیں نے تُجھے اُس کےساتھ باغ میں نہیں دیکھا؟ 27 ۲۷۔پطرسؔ نے پِھر اِنکار کر دِیا اور مُرغ نے فوراً بانگ دی۔ 28 ۲۸۔ پِھر وہ یِسُوعؔ کو کائِفا کے پاس سے قِلعہ میں لے گَئے اور صُبح کا وَقْت تھا اور وہ خُود قِلعہ میں نہ گَئے تاکہ ناپاک نہ ہوں بلکہ فَسح کھا سکیں۔ 29 ۲۹۔اِس لیے پِیلاطُسؔ اُن کے پاس باہِر نِکل آیا اور کہا کہ تُم اِس شخْص پر کیا اِلزام لگاتے ہو؟ 30 ۳۰۔ اُنھوں نے جواباً اُس سے کہا کہ اگر یہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اِسے تیرے حوالے نہ کرتے۔ ‫ 31 ۳۱۔پِیلاطُسؔ نے اُن سے کہا کہ تُم اِسے لے جا کر اپنی شرِیَعت کے مُطابِق فیصلہ کرو۔ یہُودِیوں نے اُس سے کہا کہ ہمیں رَوا نہیں کہ کِسی کا خُون کریں۔ 32 ۳۲۔یہ اِس لیے ہُوا کہ یِسُوعؔ کی وہ بات پُوری ہو جو اُس نے اپنی مَوت کے طرِیق کی طرف اِشارہ کر کے کہی تھی۔ 33 ۳۳۔تب پِیلاطُسؔ پِھر قِلعے میں داخِل ہُوا اور یِسُوعؔ کو بُلا کر اُس سے کہا کہ کیا تُو یہَودیوں کا بادشاہ ہَے؟ 34 ۳۴۔ یِسُوعؔ نے سوالاً اُس سے کہا کہ کیا تُو یہ بات خُود ہی کہتا ہَے یا اَوروں نے میرے حَق میں تُجھ سے کہی ہَے؟ 35 ۳۵۔ پِیلاطُسؔ نے جَواباً کہا کہ کیا مَیں یہُودی ہُوں؟ تیری ہی قوم اور سردار کاہِنوں نے تُجھے میرے حوالے کِیا ہَے، تُو نے اَیسا کیا کِیا ہَے؟ 36 ۳۶۔یِسُوعؔ نے جواباً کہا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی اِس جہان کی ہوتی تو میرے خادِم مُقابلہ کرتے تاکہ مَیں یَہُودِیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا مگر میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔ 37 ۳۷۔تب پِیلاطُسؔ نے اُس سے پُوچھا کہ کیا تُو بادشاہ ہَے؟ یِسُوعؔ نے جواب میں کہا تُو خُود کہتا ہَے کہ مَیں بادشاہ ہُوں۔ مَیں اِس لیے پَیدا ہُوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہُوں کہ حَق کی گَواہی دُوں۔ جو کوئی حَق کا ہَے وہ میری آواز سُنتا ہَے۔ 38 ۳۸۔پِیلاطُسؔ نے اُس سے کہا کہ حَق کیا ہَے؟ یہ کہہ کر وہ یہُودِیوں کے پاس پِھر باہِر گیا اور اُن سے کہا کہ مَیں اُس میں کوئی جُرْم نہیں پاتا۔ 39 ۳۹۔ مگر تُمھارا دستُور ہَے کہ مَیں فَسح پر تُمھاری خاطِر ایک آدمی چھوڑ دِیا کرتا ہُوں۔ چُنان٘چِہ کیا تُم چاہتے ہُوکہ مَیں تُمھاری خاطِر یہُودِیوں کے بادشاہ کو چھوڑ دُوں؟ 40 ۴۰۔اُن سب نے چِلّا کر پِھر کہا کہ اُسے نہیں بلکہ بَرابّاؔ کو اور بَرابّاؔ ایک ڈاکُو تھا۔