باب ۴

1 ۱۔تم میں لڑائیاں اور جھگڑے کہاں سے آگئے؟ کیا یہ اُن بُری خواہشوں سے نہیں جو ہم تمہارے اعضا میں جنگ کرتی ہیں؟ 2 ۲۔ تم اُن چیزوں کو حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہواور تمہیں نہیں ملتیں،اُن چیزوں کو حاصل کرنے کی خاطر جو تمہارے پاس نہیں ہیں تم قتل کرتے ہو، ناپاک خواہش کرتے ہو پھر بھی حاصل نہیں کر پاتے۔تم لڑتے اور جھگڑتے ہو توبھی حاصل نہیں کرتے کیونکہ تم نہیں مانگتے ہو۔ 3 ۳۔ تم مانگتے ہو لیکن تمہیں نہیں ملتا اِس لئے کہ تم اپنی بُری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مانگتے ہو۔‬‬ 4 ۴۔ نہیں جاننا چاہئے کہ دنیا سے محبت کرنا خدا سے نفرت کرنے کے برابر ہے۔اِسی طرح اگر کوئی شخص دنیا کادوست (حصہ دار) بننا چاہتا ہے تو اُس کا مطلب ہے کہ وہ خدا کا دشمن ہوتا ہے۔ 5 ۵۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ کتابِ مقدس بے فائدہ کہتی ہے کہ وہ روح جو خدا نے ہمارے اندر بسایا ہے کیا وہ ایسی آرزو کرتی ہے جس کا انجام حسد ہو؟‬‬ 6 ۶۔ لیکن خدا کا فضل ہی عظیم ہے جیسا کہ صحیفہ میں ہے کہ خداوند مغرورلوگوں کے خلاف ہے مگر اپنا فضل اُن کو دیتا ہے جو خاکسار ہیں۔ 7 ۷۔ اِس لئے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دو اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔ ‬‬ 8 ۸۔ خدا کے قریب آؤ تو وہ تمہارے قریب آئے گا۔اَے گناہ گارو اپنے ہاتھوں کو پاک کرو اور اَے دو دلو اپنے دلوں کو بھی پاک کرو۔ 9 ۹۔ غم زدہ ہو، ماتم کرو اور چلاّو!اپنی ہنسی کو غم اور خوشی کو مایوسی میں بدل ڈالو۔ 10 ۱۰۔ اپنے آپ کو خداوند کے سامنے حلیم بناؤ تو وہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔‬‬ 11 ۱۱۔ بھائیو! ایک دوسرے کے خلاف نہ بولو جو شخص اپنے بھائی کے خلاف بولتا ہے یا اُس کی عدالت کرتا ہے تو وہ شریعت کے خلاف بولتا اور خدا کی شریعت کی عدالت کرتا ہے۔اگر تم شریعت پر فیصلہ دو تواُس کا مطلب ہے کہ تم شریعت پر عمل کرنے والے نہیں بلکہ اُس کے حاکم ہو۔ 12 ۱۲۔ خدا ہی ہے جو شریعت کا بنانے والا ہے اور وہی منصف ہے ، خدا ہی ہر چیز کا بچانے والا اور تباہ کرنےوالا ہےاِس لئے تم کون ہو جو دوسروں کا انصاف کرتے ہو؟‬‬ 13 ۱۳۔ تم جویہ کہتے ہو سنو،’’آج یا کل ہم شہر میں ایک سال گزار کر تجارت سے بہت سا نفع کمائیں گے۔ 14 ۱۴۔ کون جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا اور تمہاری زندگی کیسی ہو گی؟تم دُھند کی مانند ہو جو تھوڑی دیر کے لئے ظاہر ہوتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔‬‬ 15 ۱۵۔ اِس کی بجائے یہ کہنا چاہیے ’’اگریہ خداکی مرضی ہے ،تو ہم زندہ رہیں گے یا ہم یہ یا وہ کریں گے۔‘‘ 16 ۱۶۔ لیکن اب تم اپنے تکبرانہ منصوبوں کے بارے میں فخرکرتے ہیں۔یہ سب تکبر ہی برائی ہے۔ 17 ۱۷۔ پس(اِس لئے) جو بھلائی کرنا چاہتا ہے لیکن نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے۔‬‬