1
شاہِ یرُوشلیؔم ابن داؤد واعظ کی باتیں ۔
2
باطل ہی باطل۔ یہ واعظ کا کہنا ہے۔ دھند کے بخارات کی طرح آندھی بھی جھونکے کی طرح بہت سے سوالات چھوڑکر سب کُچھ غائب ہوجاتا ہے ۔
3
تمہید اِنسان کو اُس ساری مشُقت سے کیا فائدہ ہَے جووہ سُورج سے نیچے کرتا ہَے؟
4
ایک پُشت جاتی ہَےاَور دُوسری آتی ہِے۔ فقط زمین ہی زمانہ کے انجام تک قائم رہتی ہَے۔
5
آفتاب طُلُوع ہوتا ہَےاورآفتاب غُروب ہوتا ہَے۔پھِر وہی اُس جگہ جلد ہی گر جاتا ہَےجہاں سے نِکلا تھا ۔
6
ہَوا جنُوب کی طرف کو چلتی اور شِمال کی طرف گھُومتی ہَے وہ اپنے گشت کے مطابق دورہ کرتی اور چکر مارتی ہے۔ تب ہوا اپنی دورہ گاہ کی طرف لوٹ آتی ہے۔
7
تمام دریا سمنُدر میں جا گِرتے ہیں پر سمنُدر نہیں بھرتا۔ پھر اُس جگہ کو جہاں سے دریا نِکلے ۔وہ لوٹ جاتے ہیں تاکہ پھِر بہیں۔
8
تمام چیزیں کام کرکر کے تھک جاتی ہَیں ۔اِنسان اُن کا بیان نہیں کرسکتا ۔آنکھ دیکھنے سے سیر نہیں ہوتی اَور کان سُننے سے نہیں بھرتا۔
9
جو کُچھ ہؤا پھِر وہی ہوگا اَور جو کُچھ کِیا گیا ۔وہی پھر کِیا جائےگا اَور سُورج کےنیچے کوئی چیز نئی نہیں ۔
10
کوئی چیز ایسی نہیں جس کی بابت کہا جائے دیکھو یہ نئی ہِےکیونکہ وہ تو اُن زمانوں میں تھی جو ہم سے پہلےگُزر گئے۔
11
اگلوں کی کوئی یادگار نہیں۔اَور نہ آنے والوں ہی کی یاد اُن لوگوںمیں ہوگی جو اُن کے بعد آئیں گے۔
12
حصول ِ حکمت کا نتیجہ مَیں واعظ یرُوشلیِّم میں اسراؔئیل پر بادشاہ تھا۔
13
مَیں نے اپنا دِل لگایا کہ آسمان کے نیچے تمام واقعات کی حِکمَت سے تفتیش وتحِقیق کرُوں۔تلاش ایک اجیرن کا م کی جسے خُدا نے بنی آدم کو مصروف رہنے کے لیے دیا ہَے۔تاکہ اُس سے دُکھ پائیں۔
14
مَیں نے اُن سب کاموں پر غور کِیا جو سُورج کے نیچے کئے جاتے ہَیں۔ اَور دیکھ وہ سب تلخ اَور ہَوا کا تَعاقُب ہَیں۔
15
جو ٹیڑھا ہَے وہ سیدھا نہیں کِیاجاسکتا۔اَور جو ناقِص ہَے وہ کامِل نہیں ہوسکتا ۔
16
اگرچہ مَیں نے اپنے باطِن میں یہ بات کہی کہ دیکھ جو مُجھ سے پہلے یرُوشلیِؔم میں ہوتے آئے ہَیں۔اُن سب پر مَیں حِکمَت میں سَبقَت اَور فَوقیّت لے گیا ہُوں اَور میرے دِل نے حِکمَت اَور عِلم کا بُہت مُطالعہ کیا ۔ِ
17
تاہم جب مَیں نے حِکمَت اَور عِلم اَور دیوانگی اَور حماقت کے جاننے کے لئے اپنا دل لگایا تو میں سمجھتا ہوں یہ بھی ہوا کی گلہ بانی کرنے کی ایک کوشش کرنے کے مترادف ہے۔
18
کیونکہ حِکمَت میں بہت غم ہَے اَور جس کا عِلم زیادہ ہُؤا۔اس کا دُکھ بھی زیادہ ہُؤا۔